لوٹی رقم استعفے کی پیشکش سے نہیں واپس آئے گی

مزمل سہروردی  جمعرات 4 فروری 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ لوٹی ہوئی رقم واپس کر دے تو وہ استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے تو یہ ایک سیاسی بیان سے زیادہ  کچھ نہیں ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانا واقعی عمران خان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ ابھی تک وہ ایسا کرنے میں ناکام ہیں۔

عمران خان اوران کے وزراء نے اپوزیشن پر کرپشن کے الزامات تو بہت لگائے ہیں لیکن ابھی تک وہ ان الزامات کو ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اپوزیشن پر اربوں کی کرپشن الزامات کے باوجود آج تک عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ اب وزیر اعظم کونسی لوٹی رقم کی واپس کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا وہ  یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے استعفیٰ کے لیے اپوزیشن وہ رقم بھی واپس کر دے گی جس کا اس پر صرف الزام ہے،کچھ ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ صرف بیانات سے لوٹی رقم واپس نہیں آسکتی۔ اب تک تو نیب بھی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے میں ناکام ہے۔ الٹا حکومت ہی لٹ گئی ہے۔ براڈ شیٹ کیس سب کے سامنے ہے۔ ایک پائی بھی واپس نہیں آئی اور اربوں چلے گئے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو اب بیانات دینے کے بجائے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے۔

یہ درست ہے کہ اپوزیشن نیب کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ نیب کو اس کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے اب اپوزیشن کا موقف بن گیا ہے کہ اب وہ نیب قوانین میں اس لیے ترامیم کے لیے تیار نہیں ہوںگے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف بھی اب ان قوانین کا مزہ چکھ لے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بحث ہی فضول ہے۔ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے نیب نہیں بلکہ نظام انصاف کو مضبوط کرنا ہوگا۔ لوٹی ہوئی دولت نیب سے نہیں عدالت کے ذریعے واپس آسکتی ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ نیب نے پلی بارگین کے ذریعے اربوں واپس لیے ہیں۔ پلی بارگین لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی مہذب قانونی طریقہ نہیں ہے۔ دوسر ا اس میں ملزم کو رعایت بھی ملتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ صرف کاروباری اور سرکاری افسران ہی اس آپشن کو استعمال کرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ صرف چھوٹے چور ہی اس آپشن کا استعمال کرتے ہیںجب کہ سیاستدان اور بڑے کاروباری افراد اس آپشن کا استعمال نہیں کرتے۔ آج تک کئی کئی ماہ قید کاٹنے کے باوجود کسی بھی سیاستدان نے پلی بارگین کا آپشن استعمال نہیں کیا ہے بلکہ وہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ویسے تو نیب کے پاس ابھی بھی بہت اختیارات ہیں۔ ثبوت کے بغیر گرفتاری کے اختیارات ہیں۔ نوے دن ریمانڈ میں رکھنے کے اختیارات ہیں۔ نیب قانون میں احتساب عدالتوں کو ریفرنس سننے کا اختیا ر تو ہے ۔ لیکن ضمانت لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح نیب قانون میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی تمام تر ذمے داری ملزم پر ہے۔

نیب پر یہ لازم نہیں کہ وہ ملزم کو مکمل طور پر گناہ گار ثابت کرے۔ بہر حال اس بات سے قطع نظر کے نیب قانون اچھا ہے یا برا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ نیب ایک طاقتور ادارہ ہے۔ عمران خان کی حکومت نے بھی نیب کی مکمل حمایت کی ہے تاہم اس مکمل حمایت کے باجود بھی لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں آسکی ہے۔ اور اب وزیر اعظم کو یہ پیشکش کرنی پڑ رہی ہے کہ اگر اپوزیشن لوٹی ہوئی رقم واپس کر دے تو وہ استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہیں حالانکہ اس کی نوبت نہیں آنی چاہیے تھی۔

دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے ملک میں احتساب کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیاہے۔ ایک آرڈیننس جاری کیا گیا جس میں نیب اور احتساب کے عمل کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا گیا۔ کاروباری افراد کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیا گیا۔ یہ کیسا احتساب ہے جس میں کچھ لوگوں کو مقدس گائے کی حیثیت ہے۔ اس سے یکساں احتساب کے فلسفہ کی نفی ہو گئی ہے، جس نے بھی کرپشن کی ہے نیب کو اس کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی اجازت ہونی چاہیے۔ جس نے بھی آمدن سے زائد اثاثے بنائے ہیں نیب کو اس کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طبقہ کے خلاف تو کارروائی ہو سکتی ہے جب کہ دوسرے طبقے کے خلاف ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے جہاں نیب کے کام کرنے کے طریقہ کار اور دیگر اقدمات پر اعتراض کیا ہے۔ وہاں سپریم کورٹ نے حکومت پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ملک میں احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ تا ہم عمران خان کی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے باجود ملک میں احتساب عدالتوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے احتساب عدالتوں میں نیب ر یفر نس تاخیر کا شکار ہیں۔اور ملزمان کو ضمانتیں مل رہی ہیں۔جب مقدمہ کا بروقت فیصلہ نہیں ہوگا تو ملزم کی ضمانت تو ہو گی۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان ملک میں نیب ریفرنسز کے بروقت فیصلوں کے لیے احتساب عدالتوں کی تعداد میں مناسب اضافہ کرتے۔ اس ضمن میں نیب اور سپریم کورٹ دونوں ہی حکومت کو درخواست کر رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان قانون بناتے کہ نیب ریفرنسز کا فیصلہ تین ماہ کے اندر ہوگا۔ اگر ریفرنس کا فیصلہ تین ماہ میں نہیں ہوتا تو پھر مقدمہ کی روزانہ سماعت ہوگی تاکہ مقدمات جلد نبٹ سکیں۔ کیا نیب میں تفتیش کے عمل کو شفاف اور تیز بنانے کے لیے کوئی اقدمات کیے گئے۔ نیب کو مضبوط کرنے کے لیے صرف بیان دینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ نیب کی استطا عت میں اضافہ کرنا بھی ناگزیر ہے۔ جس کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے گئے۔

صرف اپوزیشن کا احتساب کرنے سے احتساب مکمل نہیں ہوگا۔ کئی نیب زدگان کابینہ میں بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن سے لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ احتساب کے عمل کو یکساں اور شفاف رکھنا ناگزیر ہے۔ یک طرفہ احتساب انتقام ہی سمجھا جاتا رہا ہے اور سمجھا جاتا رہے گا۔ پاکستان میں یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ ہم نے احتساب کے عمل کو ہمیشہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے، آج بھی یہی ہو رہاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔