کیا افغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیرہوگا؟

ایڈیٹوریل  پير 8 فروری 2021
امریکا طالبان معاہدہ ایک طویل عمل کے بعد کئی نشیب و فراز سے گزر کر طے پایا جس میں امریکی حکومت فریق تھی

امریکا طالبان معاہدہ ایک طویل عمل کے بعد کئی نشیب و فراز سے گزر کر طے پایا جس میں امریکی حکومت فریق تھی

افغان طالبان نے دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا میں قائم ہونے والی نئی حکومت فروری 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹی تو پھر بڑی جنگ ہوگی۔

امریکی نشریاتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ دی افغانستان اسٹڈی گروپ نے ایک رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ نئی امریکی انتظامیہ افغانستان سے فوج واپس بلانے سے قبل طالبان کو تشدد میں کمی لانے کے لیے سختی سے پابند کرے۔ادھر طالبان نے اسٹڈی گروپ کی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر شایع ہونے والے بیان میں تشدد میں کمی لانے کے معاہدے کی شرط پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام کو مسترد کر دکرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا تشدد میں کمی نہ لانے کا بہانہ کرتے ہوئے امن معاہدے سے پیچھے ہٹا تو پھر بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے جس کی تمام ذمے داری امریکا پر عائد ہوگی۔

مسئلہ افغانستان جو گزشتہ برس ایک امن معاہدے کے نتیجے میںتقریباً حل کے قریب پہنچ چکا تھا، نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے امن معاہدے پر نظرثانی کی پالیسی کے اعلان کے بعد معاملہ ایک نیا رخ اختیار کرتاجارہا ہے، جس سے خطے میں پائیدار امن کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے ۔دوسری جانب امریکا کی جانب سے امن معاہدے پر نظرثانی کی اطلاعات پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معیدیوسف نے کہا ہے کہ امریکا ہمارے پاس نہ آئے کہ جبر کر کے مسئلہ حل کرائیں، پاکستان کی سرحد پر جنگ واپسی نہیں آ سکتی۔

یہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے، پاکستان کے بغیر افغان امن معاہدہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ اسی تناظر میں ایک اور موقف سامنے آیا ہے جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان زیڈ تارڑ نے برطانوی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات صرف چین کے زاویے سے نہیں دیکھتے، ہماری ایک اور بھی ترجیح افغانستان میں امن اور استحکام ہے۔ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔افغان طالبان ، امریکا اور پاکستان، تینوں کے موقف جاننے کے بعد صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔مسئلہ افغانستان آنیوالے دنوں میں کیا رخ اختیارکرنے جارہا ہے۔کیا خطے میں امن قائم ہوسکے گا، اس سوال کا جواب اب اتنا سہل نہیں ہے۔

بلاشبہ طالبان کو پاکستان نے مذاکرات پر آمادہ کیا تھا۔ پاکستان کی کوششوں سے قطر میں امریکا طالبان براہ راست مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں29 فروری کو گزشتہ برس امن معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے تحت طالبان کے قومی دھارے میں آنے کی امید پیدا ہوئی تھی۔ افغانستان میں امن بحال ہوتا ہوا نظر آنے لگا تھا۔ اس امن معاہدے کے تحت طالبان اور افغان انتظامیہ کو جنگ بندی کا پابند کیاگیا تھا۔ اگلے چند روز میں فریقین کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع ہونا تھا اور 20 مارچ کو انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہونا طے پایا تھا، لیکن اب منظرنامہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔

جوبائیڈن انتظامیہ کا امن معاہدے پر نظرثانی کا موقف امن معاہدے کی مخالفت کرنے والوں کے لیے اطمینان بخش ہوگا۔ بھارتی حکمران کا دل بلیوں اچھل رہا ہوگا جب کہ افغانستان میں امن کے خواہاں حلقوں کے لیے یہ بیان تشویش کا باعث ہے۔

انٹراافغان مذاکرات میں کابل کی عدم دلچسپی کے باعث خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو سکی تاآنکہ امریکا میں نئی حکومت آگئی جس کو افغان انتظامیہ گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔افغانستان میں قیامِ امن جس طرح وہاں کے لوگوں کے لیے اہم ہے، اِسی طرح پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہے کیونکہ افغانستان میں خونریزی اور بدامنی کا خمیازہ افغانستان کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ بھگتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں شروع کیے گئے امریکی منصوبے میں جس طرح اس خطے کے ممالک کے لیے کئی جال یا پھندے(Traps)تھے، بالکل اِسی طرح افغانستان میں قیامِ امن کے منصوبے میں بھی کئی جال ہیں، جن میں پھنسنے کے بجائے بہت تدبر اور بصیرت افروز خارجہ پالیسی کے ذریعہ ہمیں نکلنا ہوگا۔

اِن پھندوں کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کے لیے گہرے پانیوں میں اُترنا ہوگا، سب سے بڑا جال (Trap) افغانستان میں عدم استحکام ہے۔پاک افغان تعلقات کی اپنی تاریخ ہے اور کچھ حقائق ایسے ہیں، جنھیں آج بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ہماری کوششیں جاری ہیں اور اِس کشیدہ صورتحال کو ہمارے مشرق میں مخاصمانہ رویہ رکھنے والے دوسرے پڑوسی بھارت نے استعمال کیا۔

اس وقت بھارت اپنی سرزمین کے بجائے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ ایک سبب تو یہ تھا کہ ہندوستان کونو آبادیات بنانے کے بعد برطانوی استعمار نے افغانستان کو ’’بفر اسٹیٹ‘‘ بنا کر رکھا تاکہ شمال مغرب سے کوئی قوت ہندوستان میں داخل ہو کر برطانوی راج کے لیے چیلنج نہ بن سکے۔

اس مقصد کے لیے افغانستان اور پاکستان کے موجودہ شمالی علاقہ جات کو پتھر کے دور میں رکھا گیا اور وہاں عدم استحکام کو سیکیورٹی ضرورت بنا دیا گیا۔ اسی بفرزون میں عالمی طاقتوں کا بڑا ٹکراؤ 1970کے عشرے کے آخر میں شروع ہوا اور اب مسلسل چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے وہاں آج بھی خون کا کھیل جاری ہے۔ افغانستان اور اس سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں بدامنی نے پاکستان میں نہ صرف معاشی ترقی کو روکا بلکہ سیاسی عدم استحکام بھی پیدا کیا۔

افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ امن اس لیے اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دنیا کی ہیئت تبدیل کردینے والے چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے اہم حصے ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ (سی پیک) کو پاکستان سے گزرنا ہے۔ سی پیک نہ صرف پاکستان میں معاشی ترقی کا اہم موقع ہے بلکہ اس سے پاکستان کے لیے نئی عالمی صف بندی میں اپنا مقام ازسرنو متعین کرنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان میں بدامنی رہے، اس سے وہ دو مقاصد حاصل کرتا ہے۔اول تو وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے لیے استعمال کرتا ہے اور دوسرا وہ امریکی اتحادی کے طور پر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔

بھارت افغانستان کے مخدوش حالات کا فائدہ اٹھا کر افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا رہا اور بدستورکررہا ہے۔ پاکستان نے ایسی مداخلت روکنے کے لیے بارڈر مینجمنٹ شروع کی تو بھارت کے برگشتہ کرنے پر افغان حکومت نے اس کی سخت مخالفت کی۔ یہ حکومت پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردوں کے داخلے کے الزامات لگاتی رہی ہے۔

باڑ لگنے سے افغانستان میں مبینہ دہشت گردوں کا داخلہ ناممکن ہو جاتا۔ پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردوں کے داخلے کا الزام افغان حکومت کے رویے سے جھوٹا ثابت ہوگیا ہے۔ امن معاہدے پر عمل سے طالبان قومی دھارے میں آتے ہیں تو وہ اقتدار میں بھی حصہ دار ہونگے۔ انتخابات کی صورت میں وہ افغانستان کی بڑی پارٹی کی صورت میں اقتدار میں آسکتے ہیں۔

پاکستان نے افغانستان کی سہولت کے لیے نہ صرف طُور خم اور چمن کے کراسنگ پوائنٹس کوکھول دیا ہے بلکہ تجارت کے لیے غلام خان، انگوراڈہ اور خرلاچی کے راستے بھی کھول دیے ہیں۔ یہاں تک کہ افغانستان کی خصوصی درخواست پر اس پڑوسی ملک کے فائدے کی خاطر اسے واہگہ بارڈر پر بھی بعض اہم سہولتیں فراہم کردیں جس کا اعلیٰ افغان حکام خیر مقدم کرچکے ہیں۔

ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے امریکی منصوبے کے کیا مقاصد ہیں اورافغان حکمرانوں کی پاکستان کے بار ے میں روایتی سوچ کیا ہے؟ اس کے باوجود افغانستان میں جن اسباب کی بنا پرامن کی کوششیں ہو رہی ہیں، ہمیں ان کا اس لیے ساتھ دینا چاہیے کہ اگر افغانستان میں کچھ عرصے کے لیے بھی امن قائم ہو جائے تو پاکستان کو بہت سے مواقعے میسر آئیں گے اور پاکستان اس پوزیشن میں آسکتا ہے کہ وہ افغانستان میں مستقل اور حقیقی امن کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے۔

پاکستان میں یہ پختہ رائے پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں امن واستحکام بھارت کو پسند نہیں لہٰذا وہ حالات خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہے گا تاکہ وہ اس بدامنی سے فائدہ اٹھا سکے۔اس کے برعکس افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان،ایران اورروس کو ہے لہٰذا تینوں ملک وہاں امن کو موقع دینے کے لیے علاقائی سطح پر ایک دوسرے سے متفق ہیں۔

امریکا طالبان معاہدہ ایک طویل عمل کے بعد کئی نشیب و فراز سے گزر کر طے پایا جس میں امریکی حکومت فریق تھی۔ یہ معاہدہ افغانستان میں امن کی ضمانت ہے۔ افغان امن عمل میں طالبان کے کردار کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ جوبائیڈن انتظامیہ افغان حکومت کے رویے کو بھی دیکھے جو سولوفلائٹ کرنا چاہتی ہے۔ اسٹیٹس کو آج کے حکمرانوں کے اقتدار کو تو تحفظ دے سکتا ہے لیکن کس قیمت پر؟ افغانستان میں دہشت گردی کے جاری رہنے کی قیمت پر؟ افغانستان اور خطے میں امن کی بحالی کے لیے جوبائیڈن انتظامیہ افغان امن عمل کا سلسلہ وہیں سے شروع کرے جہاں سے ان کے پیشرو چھوڑ کر گئے ہیں تو بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔