اسٹیم سیل کی بدولت گنج پن دور کرنے میں اہم پیشرفت

ویب ڈیسک  بدھ 17 فروری 2021
جاپانی ماہرین نے خلیاتِ ساق میں ایک بایومارکر دریافت کیا ہے جو بالوں کے مختلف مراحل اور دوبارہ اگاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

جاپانی ماہرین نے خلیاتِ ساق میں ایک بایومارکر دریافت کیا ہے جو بالوں کے مختلف مراحل اور دوبارہ اگاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوٹو: فائل

ٹوکیو: جاپانی سائنسدانوں نے بالوں کی افزائش کے مسلسل دور یعنی بال اگنے اور اس کے بعد جڑ کٹ کر دوبارہ اگنے کی جینیاتی وجہ جاننے اور اسے ممکن بنانے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ اس کے بعد یہ طریقہ جانوروں پر آزمایا گیا ہے تاہم کورونا وبا کی وجہ سے انسانی آزمائش کا مرحلہ تاخیر سے دوچار ہے۔

تاہم اسے گنج پن کے خاتمے یا ایک حد تک علاج میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔ اس تحقیق کی روداد سائنٹفک رپورٹس نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ ماہرین نے انسانی جسم میں ایک طرح کے بنیادی خلیات یعنی اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) کے اندر ایک ایسا کیمیکل یا جزو (بایومارکر) دریافت کیا ہے جسے آئی ٹی جی بی ٹا فائیو Itgβ5 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بایومارکر بالوں کی افزائش کے تین اہم مراحل میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی مدد سے جانوروں میں گنج پن دور کرنے میں قریباً 80 فیصد کامیابی حاصل کی گئی ہے۔

جاپان میں بایوٹیکنالوجی پر تحقیق سے وابستہ رائکن سینٹر نے انسانی جلد میں موجود اسٹیم سیل میں ایسے بایومارکر دریافت کئے ہیں جو انسانی بال کو مسلسل افزائشی چکر سے گزارتے رہتے ہیں۔

اسے یوں سمجھئے کہ انسانی بال اگنے کے تین اہم مراحل ہوتے ہیں۔ ان میں ایناجین مرحلہ سب سے اہم ہوتا ہے جس میں بالوں کی افزائش بھرپور ہوتی ہے۔ اگر ایناجن مرحلہ ختم ہوتو بال کیٹاجن مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور وہ کمزور ہونے لگتا ہے اس کے بعد ٹیلوجن مرحلہ ہوتا ہے جس میں بال ٹوٹنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ قدرتی طور پر ہوتا ہے ۔ یہ چکر مکمل ہوتا ہے اور بال دوبارہ ایناجن مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن گنج پن کے شکار افراد میں بال گرنے کے بعد یہ سلسلہ رک جاتا ہے۔

اب تک گنجے افراد میں بال اگانے کے تجربات تو کئے گئے تھے لیکن ایک مرتبہ بال گرگیا تو وہ دوبارہ پیدا نہیں ہوسکا یعنی ایناجن مرحلہ شروع نہیں ہوپاتا۔ اب اسٹیم سیل میں موجود ایک کیمیل آئی ٹی جی بی فائیو کو تھوڑا تبدیل کرکے اسی وقت بالوں کے نیچے کی کھال میں داخل کیا گیا جب بال ہلکا سا نمودار ہوا تھا۔

جانوروں میں اس کے بہت اچھے اثرات دیکھے گئے ہیں اور یوں گنج پن میں کمی کی امید پیدا ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق بہت جلد انسانوں پر اس نئے طریقے کی آزمائش کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔