- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- ججز دھمکی آمیز خطوط، اسلام آباد ہائیکورٹ کا مستقبل میں متفقہ ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
- سعودیہ سے دیر آنے والی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
- بیوی کی ناک اور کان کاٹنے والا سفاک ملزم ساتھی سمیت گرفتار
- پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
- ٹریفک وارڈنز لاہور نے ایمانداری کی ایک اور مثال قائم کر دی
- مسجد اقصی میں دنبے کی قربانی کی کوشش پر 13 یہودی گرفتار
انسانی مداخلت سے دنیا کے نصف دریاؤں میں مچھلیوں کی انواع میں کمی
فرانس: اگرچہ کرہ ارض پر صنعتی انقلاب کے بعد سے ہی دریاؤں اور جھیلوں میں موجود میٹھے پانی کی مچھلیوں کی اقسام تیزی سے روبہ زوال ہے تاہم اس ضمن میں ایک بہت وسیع تحقیق کی گئی ہے۔
ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر کے نصف دریاؤں میں مچھلیوں کی حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فرانس کے شہر تولوز میں واقع پال سباتیئریونیورسٹی کے سباسٹیئن بروس اور ان کے ساتھیوں نے پوری دنیا میں 2456 دریا اور ان کے طاس کا ڈیٹا جمع کیا ہے۔ اس ضمن میں دس برس تک دریاؤں کے اعدادوشار جمع کئے گئے ہیں۔
ان دریاؤں میں 14 ہزار اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جو میٹھے پانی میں موجود مچھلیوں کی 80 فیصد اقسام کو ظاہر کرتی ہیں۔ سباسٹیئن اور ان کے ساتھیوں نے انسانی سرگرمیوں سے مچھلیوں کے اقسام میں سکڑاؤ کو صفر سے 12 نمبر دیئے ہیں۔ یعنی اسکور جتنا زیادہ ہوگا تو جھیل میں مچھلیوں کی کمی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ 53 فیصد دریائی طاس کا اسکور 6 سے اوپر رہا جس کا واضح مطلب ہے کہ انسانی مداخلت نے یہاں مچھلیون کی اقسام کو شدید متاثر کیا ہے۔ متاثر ہونے والے اکثر دریا امیرممالک میں شامل ہیں جن میں یورپ اور شمالی امریکی اقوام سرِ فہرست ہیں۔ یہاں کے دریاؤں کو انسانی سرگرمیوں سے شدید خطرہ ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ 14 فیصد دریا ایسے بھی ہیں جہاں انسانوں ن قدرے معمولی تباہی مچائی ہے لیکن وہاں مچھلیوں کی صرف 20 فیصد تعداد ہی پائی جاتی ہے۔ ایسے دریا آسٹریلیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افریقہ میں صنعتی ترقی کی رفتار قدرے سست ہے جبکہ آسٹریلوی دریاؤں کی اطراف بہت کم آبادی پائی جاتی ہے۔
جن جن دریاؤں کے کنارے معاشی سرگرمیاں شروع کی گئیں وہ زیادہ متاثر ہوئے جن میں دریائے مسی سِپی سرِ فہرست ہے اور سب سے زیادہ انسانی تباہی ظاہر کررہا ہے۔ دوسری جانب مچھلیوں کے اندھا دھند شکار، زرعی ادویہ کے استعمال اور آب ہوا میں تبدیلی سے بھی دریا میں غذائی اجزا کا بہاؤ متاثر ہوا ہے۔
بعض ممالک میں مچھلیاں ہی پروٹین کے حصول کا مرکزی ذریعہ ہے مثلاً کمپوچیا میں پروٹین کی 60 فیصد مقدار مچھلی سے ہی حاصل کی جارہی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔