جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کا فیصلہ سنادیا گیا

ویب ڈیسک  پير 22 فروری 2021
سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی کی نظرثانی درخواستیں بنچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دیں

سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی کی نظرثانی درخواستیں بنچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دیں

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کا فیصلہ سنادیا۔

سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی کی نظرثانی درخواستیں بنچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو بھجوا دیں۔ بینچ کی تشکیل کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی در خواست کو سنا جائے گا۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ بنچ تشکیل دینے کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہے، چیف جسٹس چاہیں تو نظرثانی درخواستوں پر لارجر بنچ بھی بنا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسی نظرثانی کیس میں بنچ کی تشکیل پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے دس دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عام طور پر فیصلہ دینے والا بنچ ہی نظرثانی درخواستیں سنتا ہے، نظرثانی بنچ میں فیصلہ تحریر کرنے والا جج لازمی شامل ہوتا ہے۔

چھ رکنی بنچ نے پانچ ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا اور جسٹس منظور ملک نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس فائز عیسی کیس کی سماعت دس رکنی فل کورٹ نے کی تھی۔

نظرثانی درخواستوں پر سماعت کیلئے اکثریتی فیصلہ دینے والے چھ ججز کو بنچ بنایا گیا تھا تو جسٹس فائز عیسی اور بار کونسلز نے نظرثانی درخواستوں پر بنچ کی تشکیل چیلنج کی تھی۔

فیصلہ دینے والے ایک جج جسٹس فیصل عرب نظرثانی درخواستوں سے قبل ریٹائر ہوگئے تھے۔

پس منظر

سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خارج کر دیا تھا اور ان میں سے سات ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے ٹیکس سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا تھا جبکہ تین ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کیں جن کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا چھ رکنی بنچ بنایا گیا اور اختلافی نوٹ لکھنے والے تین ججز کو حصہ نہیں بنایا گیا۔

جسٹس فائز عیسی سمیت دیگر درخواست گزاروں نے چھ رکنی بنچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ کرنے والا دس رکنی فل کورٹ ہی سماعت کرسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔