کشمیر کا مجاہدِ اعظم اوراس کا روحانی مرشد (دوسری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 24 فروری 2021
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

اقبالؒ مولانا روم سے کہتے ہیں  ؎

ہم نفس میر ے سلاطیں کے ندیم

میں فقیرِ بے کلا ہ و بے کلیم

( میرے ساتھی تو حکمرانوں اور باد شاہوں کے مقرب اور مشیربن گئے ہیں جب کہ میں ایک بے سروسامان درویش ہوں) اُس کے جواب میں پیر روم کہتے ہیں ؎

بند ۂ یک مردِروشن دل شوی

بہ کہ بر فرق سرِ شاہاں روی

کسی روشن دل، خدا پرست اور آخرت پسند انسان کی صحبت اختیار کرنا کسی بادشاہ کے سر کا تاج بن جانے سے بہترہے۔سید علی گیلانی اقبالؒ پراپنی بینظیرکتاب میں اقبالؒ اور رومی کے مکالمے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبالؒ استفسار کرتے ہیں:

؎ کس طر ح قابو میںآئے آب وگلِ

کس طر ح بیدار ہو سینے میں دل

جس پر مولانا رومی جواب دیتے ہیں   ؎

بندہ باش وبرزمیں روچوں سمند

چوں جنازہ نے کہ برگردن برند

اللہ کا مخلص بندہ بن جا اور زمین پر تیز رو گھوڑے کی طرح دوڑ، جس طر ح جنازے کو دوسرے لوگ اٹھاتے ہیں اس طرح زمین پر ایک بوجھ نہ بن ، مسکینوں اور محکوموں کی طرح اللہ اور رسولﷺکے باغیوں کے غلاموں کی طرح زندگی گزارنا مسلمان کے شایان شاِن نہیں ہے۔

مریدِ ہندی سوال کرتاہے۔؎

علم و حکمت کا ملے کیونکر سراغ

کس طر ح ہاتھ آئے سوز و  درد  و  داغ

پیررومی جواب دیتے ہیں،

علم و حکمت زائد اَز نانِ حلال

عشق و رقت زائد اَز نانِ حلال

علم و حکمت کے ثمرات رزقِ حلال ہی سے حاصل ہوتے ہیں ۔ اپنے خالق و مالک کے ساتھ عشق و محبت کا تعلق اور دلوں کا گداز بھی رزقِ حلال سے ہی حاصل ہوتاہے۔ آج کے مادہ پرستی کے دور میں رزقِ حلال نا پید ہے، کرپشن اور حرام خوری کا کلچر فروغ پاچکا ہے ، اس لیے دلوں کا گداز ، رقت اوربار گاہِ الہیٰ میں حضوری کی کیفیت، کچھ بھی باقی نہیں رہا۔

مجاہدکے سامنے اب اپنے روحانی مرشدکی معرکتہ الآرہ کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ہے جس میں اقبالؔ مولاناروم کی معیّت میں افلاک کا سفر کرتے ہیں جہاں ان کی کچھ عظیم شخصیات سے ملاقات ہوتی ہے۔ مجاہد لکھتا ہے کہ جہاں دوست (اقبالؒ) استفسار کرتا ہے جس کا جواب مرشد رومی دیتے ہیں ؛  ؎

گفت مرگِ عقل؟ گفتم تر کِ فکر

؎ گفت مرگِ قلب ؟ گفتم ترکِ ذکر

پوچھاگیا کہ عقل کی موت کیسے واقع ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ جب فکر یعنی نظر یئے اور نصب العین سے کنار اکشی کی جا ئے۔

پوچھا گیا کہ دل کی موت کے اسباب کیا ہیں ؟  میں نے کہا کہ اللہ کی یاد سے غفلت برتنے سے ۔  خالقِ کائنات نے خود فرمایا ہے اَلا بذِکرِاللہ تَطمَئنَّ القُلُوب (القرآن) (اللہ کی یاد سے ہی دلوں کا اطمینان حاصل ہوتاہے)

گفت تن؟گفتم کہ زاد از گردِرہ

گفت جاں؟گفتم کہ رمزِ لااِلہٰ

پوچھا گیا کہ جسم کیا ہے؟ میں نے کہا وہ تو مٹی اور گردِ راہ سے تشکیل پاتاہے۔ پوچھا گیا، روح کیا ہے ؟ میں نے کہا رب کا ئنات کا حکم اور امر جس کے بغیر نہ کوئی خالق ہے اور نہ مخلوق۔ پھرپوچھا گیا انسان کیا ہے؟میں نے کہا اﷲ کے رازوں میں سے ایک راز۔ پوچھا گیا دنیا کیاہے؟ میں نے کہا وہ تو خود سامنے ہے یعنی مظاہرِ کائنات ہر طر ف بکھرے ہوئے ہیں۔ پوچھا گیا یہ علم و ہنر کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ محض چھلکاہے کہ جب تک ابدی حقیقت کی طر ف رہنمائی نہ کرے۔

پوچھا دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا دوست کا رخِ زیبا۔ پوچھا گیا، عام لوگوں کے دین کی بنیاد کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا جو کچھ دوسروں سے سنتے ہیں۔ پوچھاگیا کہ اللہ کی معرفت رکھنے والوں (عارفوں) کا دین کیا ہے؟ میں نے کہا عینی مشاہدہ۔ جیسے اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو کراتا ہے۔ مجاہد لکھتا ہے کہ جاوید نامہ میں ایک اور مقام پر پیرِ رومی اقبال کے سامنے ملت کی زبوں حالی کا جگر خراش نقشہ کھینچ کر اس کی حالت بدل دینے پر متوجہ کرتے ہیں ۔

بازدرمن دید و گفت اے زندہ رود

بادو بیتے آتش افگن دروجود

(اے زندہ رود!(اقبالؒ) مسلمانوں اور اُمت ِ مسلمہ کے وجود میں حرارت پید کر اور اس کے بے حس اور مردہ جسم میں اپنے اشعارسے آگ لگا دے)۔  مجاہد نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ کلام ِالہٰی کی ان آیات کے حوالے دیے ہیں جن میںخالق اور مالک اپنے بندوں کو سختیاں اور مصائب برداشت کرنے اور آزمائشوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لیے تیار کررہا ہے۔ اقبالؒ انھی آیات کے ہم معنی اشعارکہتے ہیں،  جدوجہدکے متعّلق قرآنی آیات کی تفسیر اور کلامِ اقبال کی تشریح جب اِس دور کا سب سے بڑا مجاہد کر رہا ہو تو لطف دوبالاہو جاتا ہے اور ہر چیز واضح ہو جاتی ہے۔

پیر ِرومی زندہ رود (اقبالؔ) کو پیغام دیتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کے راستے میں دریائے نیل اور آتشِ نمرود آئیں گے ، جس طر ح حضرت موسیٰ اللہ کی نصرت کے ساتھ دریائے نیل عبور کر گئے، اور حضرت ابراہم آتشِ نمر ود میں کود کر بھی سرخرو نکلے ،آج بھی سرخرو ہوا جا سکتا ہے ۔

دریا میں راستہ بنانے والا اورآگ کو گل و گلزار میں بدلنے والا رب کائنات آج بھی وہی قدرت اور طاقت رکھتاہے۔ پیرِ رومی ایک طرف ابتلا اور آزمائش کو راہِ حق کے لازمی مراحل قر ار دیتے ہیں،  دوسری طرف زندہ رود کو متوجہ کر کے کہتے ہیں کہ  قوموں کی قیادت میں جب تک  بُوئے دوست نہ ہو ملت کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا یا جاسکتا ۔ بو ئے دوست سے مراد اللہ کی رضا، خوشنودی اور انسان کے ساتھ امتیازی سلوک سے اجتناب ہے۔ ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘ (القرآن)

پیرِِروم کی فرمائش پر زندہ رود(اقبالؒ) چند شعر سناتے ہیں جن کا مطلب ہے کہ زندگی کے بارے میں مجھے تازہ سوالات (مسائل) کے معانی کی تلاش اور جستجو ہے لیکن جواب کہیں دستیاب نہیں ہیں۔ مسجد، مکتب اور مے خانہ، سب با نجھ ہو چکے ہیں۔ مرشد جواب دیتے ہیں کہ خود ہی کوشش کرو اور حقائق جاننے کے لیے اصل سر چشمۂ ہدایت کی طرف رجوع کرو ۔ افسوس ہے کہ جن خانقاہو ں اور بے جان سُروں کی طرف تم دیکھ رہے ہو، وہ سب کلیم اللہ کے سوزاور جذے سے خالی ہیں ،اور انقلابی روح سے محروم ہو چکے ہیں۔ انھوں نے ایک حرم میں بہت سارے حرم بنالیے ہیں۔ اب وہ قومیت، وطنیت ، رنگ ، نسل ، زبان، ملوکیت ، لادین نظام زِندگی (سیکولرازم ) اور مغرب کی تہذیب وثقافت کے بتوں کو پُوج رہے ہیں۔

اقبال ؒکا کہنا ہے کہ اللہ اس کے دین اور اس کے پیغمبروںکے ساتھ غایت درجے کی محبت (جسے اقبالؒ عشق کا نام دیتے ہیں) ہی انسانی تہذیب کی اساس اور بنیاد ہے۔

دیںنہ گردوپختہ بے آداب عِشق

دیں بگیراز صحبتِ اربابِ عشق

(دین کے ساتھ وابستگی اور پختگی عشق کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ دین کو اہلِ عشق کی صحبت میں ہی حاصل کیا جاسکتاہے) ۔علامہ فرماتے ہیں  ؎

درتلاشِ  جلوہ  ہائے پے بہ پے

طے کنم افلاک ومی نالم چُونَے

میں مختلف اور مسلسل جلووں اور نظاروں کی تلاش میں افلاک کی سیر کرتا ہو ں اور بانسری کی طرح نالہ و فریاد کرتا رہتا ہوں ۔ ایک مردِ خدا نے اپنے دردو سوز کو میر ے دل وجان میں اتاردیا ہے۔ اقبالؒ اپنے سفر کی رُوداد بتاتے ہیں کہ ہمارے کارواں نے مشتری کے کنارے پر پڑاؤ کیا جہا ں کچھ روحوں کے سینوں کی تپش دنیا کو پگھلانے والی لگ رہی تھی ۔

پیر روم نے کہا کہ یہ وہ ہیںجنھوں نے اپنے وجوداور پوری کائنات کو اللہ کی بخشی ہو ئی نظر اور بصیرت سے دیکھا ہے۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے ،’’مومن کی فراست اور دیدہ وری سے ڈرو ، وہ اللہ کے بخشے ہو ئے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ مجاہد یہاں معروف ایرانی شاعر نظیری کے اس مصرعہ طرح کا ذکر کرتا ہے  ؎کسے کہ کشقہ نہ شُد از قبیلہ مانیست ۔ (جو اللہ کی راہ میں مارا نہ جائے وہ ہمارے قبیلے میں سے نہیں ہے ) اللہ اکبر کیا شانِ ِبندگی ہے۔ اقبالؔ نے اسی جذبے کو متاعِ بے بہا قرار دیا ہے۔

؎ متاع بے بہاہے درد و سوزِآرز ومندی

مقام ِ بندگی دیکرنہ لو ں شانِ خداوندی

افلاک کی سیر کے دَوران رومی، اقبالؒ سے کہتے ہیں کہ اگرچہ جادو صفت عقل نے بہت بھاری لشکر تیار کر رکھے ہیں لیکن تجھے دل گر فتہ اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے،عشق بھی تنہا نہیں ہے ۔ بقول شیخ سعدی ؒ  ؎ دشمن اگر قوی است ، دوست قوی تراست۔ اگر دشمن طاقتور ہے مگر ہمارا دوست ، حامی اور مددگار رب کا ئنات زیادہ قو ی اور طاقتورہے۔

مرشد ، سہل انگاری اور آرام طلبی سے بچنے اور مشکل کشی اور جفا طلبی کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہو ئے کہتے ہیں کہ مصلحت پسند ، تن آسان اور آسان راستے تلاش کرنے والے ہمارے ہمسفر نہیں بن سکتے، ہمارے کارواں میں وہی شامل ہوسکتے ہیں جو جمود کا شکارنہ ہو ں اور حرکت ، عمل اور جدوجہد کے دلدادہ ہوں۔(جاری ہے)ا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔