- امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی روک دی
- فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا،چیف جسٹس
- یقین ہے اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ساتھ لائیں گے؛ بابراعظم
- پاکستانی نوجوان سعودی کمپنیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار شروع کریں گے، وفاقی وزرا
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمتوں میں بڑا اضافہ
- جنوبی وزیرستان: نابینا شخص کو پانی میں پھینکنے کی ویڈیو وائرل، ٹک ٹاکرز گرفتار
- پنجاب پولیس نے 08 سالہ بچی کو ونی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا
- حکومتی پالیسی سے معیشت مستحکم ہو رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا ہوگا، وزیر خزانہ
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ایئرفورس کے قافلے پر حملہ؛ 1 ہلاک اور 4 زخمی
- پی ٹی آئی کا شیخ وقاص اکرم کو چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ
- گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے عہدے کا حلف اٹھالیا
- کراچی اور لاہور میں ایک پاسپورٹ دفتر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ
- پرویز الٰہی کو جیل سے اسپتال یا گھر منتقل کرنے کی درخواست منظور
- کراچی میں منشیات فروشوں کی فائرنگ سے 2 دوست جاں بحق
- سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل
- پختونخوا حکومت کاشتکاروں سے 29 ارب روپے کی گندم خریدنے کیلیے تیار
- حماس کی اسرائیلی فورسز پر راکٹوں کی بوچھاڑ، 3 فوجی ہلاک، 11 زخمی
- گندم اسکینڈل؛ کون سی راکٹ سائنس ہے؟
- زہریلے کنکھجورے گردوں کی بیماری کے علاج میں معاون
- ناسا کا چاند پر جدید ریلوے سسٹم بنانے کا منصوبہ
آب و ہوا میں تبدیلی سے ایک تہائی عالمی خوراک کو خطرہ لاحق
لندن: آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھا ہے تو اب کہا جارہا ہے کہ یہ ہولناک تبدیلیاں ان علاقوں کو شدید متاثر کرسکتی ہیں جنہیں آج غذائی ٹوکری کے زرخیز خطے کہا جاتا ہے۔
بلاشبہ یہ ایک تشویشناک امر ہے جس کی جانب آلٹو یونیورسٹی نے توجہ کی ہے۔ پہلے یہ کہا گیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیرمعمولی اخراج کا یہ سلسلہ جاری رہا تو خوراک کی عالمی پیداوار میں کم سے کم 33 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یہ تحقیق جرنل ون ارتھ میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق اس صدی کے اختتام تک دنیا بھر کی 95 فیصد غذا کاشت کرنے والے علاقے اس درجے تک متاثر ہوں گے کہ ان میں بعض کی پیداوار تیزی سے گرجائے گی یا پھر وہ مکمل طور پر بنجر ہوجائیں گے۔ لیکن ساتھ ہی اچھی خبر یہ ہے کہ اگر ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی مضر ترین گرین ہاؤس گیس کے اخراج پر قابو پاسکیں تو اس ممکنہ بھیانک صورتحال کو بھی ٹالا جاسکتا ہے۔ یعنی ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ اس صدی کے آخری سال تک عالمی اوسط درجہ حرارت کسی بھی طرح ڈیڑھ سے دو درجے سینٹی گریڈ سے اوپر بڑھنے نہ پائے۔
غذائی پیداوار والے یہ علاقے بارانی ہیں جن میں جنوبی اور جنوبی مشرقی ایشیا، افریقہ میں ساحل نامی خطہ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ اس تحقیق میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کرہ ارض پر زراعت اور غلہ بانی کے 27 اہم ملک یا علاقے ایسے ہیں جو بہت متاثر ہوسکتےہیں۔ تاہم 177 ممالک میں سے 52 ممالک کی زرعی پیداوار متاثر نہیں ہوگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔