- پاکستان آئی ایم ایف سے مزید 8 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا خواہاں ہے، وزیرخزانہ
- قومی کرکٹر اعظم خان نیوزی لینڈ کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہر
- اسلام آباد: لڑکی کا چلتی کار میں فائرنگ سے قتل، باہر پھینک دیا گیا
- کراچی؛ پیپلز پارٹی نے سول ہسپتال کے توسیعی منصوبے کا عندیہ دےدیا
- کچے میں ڈاکوؤں کو اسلحہ کون دیتا ہے؟، سندھ پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا
- ڈاکٹروں نے بشریٰ بی بی کی ٹیسٹ رپورٹس نارمل قرار دے دیں
- دوسرا ٹی ٹوئنٹی: نیوزی لینڈ کی پاکستان کیخلاف بیٹنگ جاری
- جعلی حکومت کو اقتدار میں رہنے نہیں دیں گے، مولانا فضل الرحمان
- ضمنی انتخابات میں پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کو تعینات کرنے کی منظوری
- خیبرپختوا میں گھر کی چھت گرنے کے واقعات میں دو بچیوں سمیت 5 افراد زخمی
- درجہ بندی کرنے کیلئے یوٹیوبر نے تمام امریکی ایئرلائنز کا سفر کرڈالا
- امریکی طبی اداروں میں نسلی امتیازی سلوک عام ہوتا جارہا ہے، رپورٹ
- عمران خان کا چیف جسٹس کو خط ، پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا مطالبہ
- پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی، شوہر کو تین ماہ قید کا حکم
- پشاور میں معمولی تکرار پر ایلیٹ فورس کا سب انسپکٹر قتل
- پنجاب میں 52 غیر رجسٹرڈ شیلٹر ہومز موجود، یتیم بچوں کا مستقبل سوالیہ نشان
- مودی کی انتخابی مہم کو دھچکا، ایلون مسک کا دورہ بھارت ملتوی
- بلوچستان کابینہ نے سرکاری سطح پر گندم خریداری کی منظوری دیدی
- ہتھیار کنٹرول کے دعویدارخود کئی ممالک کو ملٹری ٹیکنالوجی فراہمی میں استثنا دے چکے ہیں، پاکستان
- بشریٰ بی بی کا عدالتی حکم پر شفا انٹرنیشنل اسپتال میں طبی معائنہ
سائنسی تاریخ کی ’’انقلابی کتاب‘‘ چھ کروڑ روپے میں فروخت
نیو یارک سٹی: گزشتہ ہفتے سائنسی تاریخ کی ایک اہم اور انقلابی کتاب کا 478 سال پرانا، اوّلین ایڈیشن 277,200 پاؤنڈ (چھ کروڑ پاکستانی روپے) میں نیلام ہوا۔
یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی کے مشہور یورپی ماہرِ فلکیات نکولس کوپرنیکس کی تصنیف ہے جس میں پہلی بار سورج کو کائنات کا مرکز قرار دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ تمام ستارے اور سیارے ہماری زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔
لاطینی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کا عنوان De revolutionibus orbium coelestium (آسمانی کروں کی گردش کے بارے میں) ہے اور اس کا پہلا ایڈیشن 1543 عیسوی میں، ٹھیک اسی سال شائع ہوا جب کوپرنیکس اس دنیا سے رخصت ہوا۔
اس سے پہلے تک مذکورہ کتاب کے پہلے ایڈیشن کی صرف 276 کاپیاں ہی معلوم تھیں، جن میں سے ایک کاپی 2008 میں 22 لاکھ 10 ہزار ڈالر کی ریکارڈ قیمت میں نیلام ہوچکی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو گزشتہ ہفتے نیلام ہونے والی کاپی کی قیمت اس سے بہت کم ہے کیونکہ اس کے چند صفحات پھٹے ہوئے ہیں۔
کتاب کی انقلابی اور تاریخی اہمیت
یہ کتاب اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں کوپرنیکس نے سورج کو کائنات کا مرکز قرار دینے کے علاوہ یہ بھی کہا تھا کہ زمین ایک سیارہ ہے جو دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد اپنے مدار میں چکر لگا رہی ہے۔
کوپرنیکس نے سورج کے گرد سات کروں (spheres) کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے چھ دائروں (مداروں) میں ’’سیارے‘‘ ہیں جن میں بالترتیب عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری اور زحل شامل ہیں (جو اس زمانے تک دیکھے گئے سیارے تھے) جبکہ سب سے بیرونی کرہ ’’ثوابت‘‘ (ستاروں) کا ہے جو ’’آسمان میں اپنی اپنی جگہ ساکن‘‘ ہیں۔
اسی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے بعد ازاں ٹائیکو براہے نے آسمان کے تفصیلی مشاہدات کیے اور سیاروں کی حرکت سے متعلق تفصیلات نوٹ کیں۔
ان تمام معلومات کی روشنی میں ٹائیکو براہے کے شاگرد، جوہانس کیپلر نے سیاروں کی حرکت کے قوانین وضع کیے اور کہا کہ سورج کے گرد سیاروں کے مدار ’’بالکل گول دائروں‘‘ (perfect circles) کی شکل میں نہیں بلکہ انڈوں جیسے یعنی ’’بیضوی‘‘ (elliptical) ہوتے ہیں۔
اس کے بعد 17ویں صدی عیسوی میں جب آئزک نیوٹن نے کششِ ثقل (گریویٹی) کے بارے میں اپنے قوانین پیش کیے تو ان میں جوہانس کیپلر کی یہی تحقیق استعمال کی گئی تھی۔
نیوٹن نے اپنے یہ قوانین ’’پرنسپیا میتھمیٹیکا‘‘ نامی کتاب کی صورت میں شائع کیے جس کا پہلا ایڈیشن 1687 میں منظرِ عام پر آیا۔
اگرچہ نیوٹن کی ’’پرنسپیا‘‘ کو سائنس کی عظیم ترین کتاب کا درجہ بھی حاصل ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اسے یہ راہ نکولس کوپرنیکس کی ’’آسمانی کروں کی گردش کے بارے میں‘‘ اور جوہانس کیپلر کی تحقیق نے ہی دکھائی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔