مہذب معاشرے کے مہذب عوامی نمائندے

مناظر علی  بدھ 16 جون 2021
دوران اجلاس وزرا اور ارکان اسمبلی بجٹ دستاویزات کو ڈیسک پر مارتے رہے۔ (فوٹو: فائل)

دوران اجلاس وزرا اور ارکان اسمبلی بجٹ دستاویزات کو ڈیسک پر مارتے رہے۔ (فوٹو: فائل)

آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آپ عوام کے نمائندے ہیں یا اپنے مفادات کے؟ ایوان کس لیے ہوتا ہے؟ وہاں جمع ہونے کا مقصد کیا ہے؟ قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں، مراعات اور پروٹوکول لینے کے بعد بھی آپ کو سکون نہیں۔ معزز ایوان میں جس طرح کے مناظر دیکھے، سر شرم سے جھک گئے۔ اپنے عوام تو ایک طرف، ہم ایسا کرکے دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اس طرح عوامی مسائل حل ہوتے ہیں یا مسلم امہ کے مسائل کا حل اس تاثر سے آسان ہوگا؟ کیا ایسا کرکے کشمیر آزاد ہوگا یا فلسطینی بھائیوں کی مدد ہوگی؟

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر کے دوران وفاقی وزرا سمیت حکومتی ارکان نے دل کھول کر خوب ہنگامہ آرائی کی۔ ایوان کوئی ایوان نہیں بلکہ مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا رہا اور یوں دوسرے روز بھی قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو تقریر کا موقع نہ مل سکا۔ وزرا اور ارکان اسمبلی بجٹ دستاویزات کو ڈیسک پر مارتے رہے، سیٹیاں اور ہوٹنگ ایسی کہ جیسے یہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلکہ کوئی اکھاڑا ہو۔

انتہائی افسوسناک صورتحال دیکھ کر یوں نہیں لگ رہا تھا جیسے یہ ہمارے عوامی نمائندے ہیں، یہ پڑھے لکھے ارکان اسمبلی ہیں یا تعلیم کی بدولت کوئی تہذیب نام کی چیز ہے۔ ایک طرف اسمبلی کی ہنگامہ آرائی تو دوسری طرف مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ ان ہی میں سے کچھ جب کسی تقریب میں تقریر کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے سامنے بیٹھے حضرات کوئی ناسمجھ بچے ہیں اور یہ بزرگ محترم، یہ استاد ذی وقار ہیں جو انہیں مستقبل روشن کرنے کی ہدایت کررہے ہیں۔ ان کی باتوں پر عمل کرکے آج ہی سارے مسائل حل ہوجانے ہیں۔

اسمبلی کی ہنگامہ آرائی دیکھ کر مجھے لاہور کے ایک ہوٹل میں ایک وزیر کی تقریر بھی ذہن میں آرہی تھی، جب وہ فرما رہے تھے کہ پاکستانی قوم، کوئی قوم نہیں یہ بھیڑوں کا ریوڑ ہے، ہماری نوجوان نسل نجانے کیوں سیریس نہیں ہورہی اور نجانے کیا کچھ کہتے رہے۔ اچھی باتیں کرنا یقیناً اچھی بات ہے اور ان پر عمل کرنے سے انسان اچھا ہی ہوتا ہے، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ اچھائی سب سے پہلے ایوان سے شروع ہوتی، جہاں عوام کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں، جہاں بجٹ بنتے ہیں، جہاں لوگوں کی تنخواہوں کے فیصلے ہوتے ہیں، جہاں قانون سازی کی جاتی ہے، قوم کو ایک مہذب قوم بنانے کےلیے قانون سازی ہوتی ہے۔ مگر جب یہ قانون ساز ہی غیر مہذب ہونے کا ثبوت پیش کردیں تو پھر عوام کو کیا اتنا حق حاصل ہے کہ وہ بھی مہذب انداز میں انہیں ان کے اعمال کا آئینہ دکھا سکے؟ کیا عوام کو اتنی اجازت ہے کہ وہ بھی اس غیر مہذب طبقے کو مہذب رہنے کی تلقین کرسکے؟ کیا عوام کو حق حاصل ہے کہ یہ پوچھ سکے کہ ہمارے ہی پیسوں پر مراعات لینے والے ہمارے لیے کیا کررہے ہیں؟

مہنگائی کے جن نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر رکھا ہے اور یہاں مہنگائی کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے لوگ ہی اپوزیشن لیڈر کو تقریر کا موقع نہیں دے رہے۔ مانا کہ نون لیگ زیر عتاب ہے، آپ کے کہنے پر یہ بھی مان لیتے ہیں کہ شہباز شریف ’’چور‘‘ ہے۔ سب مان لیا، مگر اتنی سی گزارش ہے اگر ایوان کے ہنگامے کے بعد بھی آپ کو عوام کےلیے قانون سازی اور انہیں بھاشن دینے کا حق ہے تو پھر اپوزیشن کو بھی اپنی بات کہنے کا حق ہونا چاہیے۔ زبان بندی سے کیا آوازیں دب جاتی ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ دبانے کی کوشش ناکام ہوتی ہے اور ایسی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کے ہی رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے پارلیمنٹ میں دھینگامشتی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں، پارلیمنٹ کو صرف شخصیات کے تحفظ میں دلچسپی ہے۔ کسی کو آٹا، چینی، لوڈشیڈنگ اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی پرواہ نہیں، ہمارا ایجںڈا عوام کی خدمت ہونا چاہیے۔ نور عالم خان کی چاہت بالکل درست ہے مگر یہ تبھی ممکن ہوگا جب یہ تمام ارکان اسمبلی کی خواہش بن جائے۔

لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ یہ چاہتے کیا ہیں؟ یہ عوام کے نمائندے ہیں یا پھر اپنے مفادات کے؟ اگر آپ کو سمجھ آجائے تو ضرور بتائیے۔ ہوسکتا ہے ہماری کوششوں سے یہ شرفا حقیقت میں ہی شریف ہوجائیں، جس کی بدولت قوم کی قسمت بدل جائے۔ ممکن ہے کہ مہذب معاشرے کو حقیقت میں مہذب عوامی نمائندے بھی میسر آسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔