آئینہ

راؤ منظر حیات  ہفتہ 26 جون 2021
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

ملک میں مذہبی طبقے کی ازحد تکریم ہے۔ مگر کچھ عرصے سے اس طبقے کے بعض افراد کے ایسے قبیح فعل سامنے آئے ہیں جس سے اس محترم طبقے کو طعنے سننے پڑ رہے ہیں۔ خود کو شیخ الحدیث کہلوانے والا ایک شخص اپنے طالب علم کے ساتھ کیا کر رہا تھا۔ یہ ایک ویڈیو کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ بچوں‘ نوجوانوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں ہمارے ملک میں اضافہ ہو رہا ہے۔کیا ایسے واقعات کا تعلق صرف مدارس سے جوڑنا درست ہے؟ کیا ملک میں دیگر درسگاہیں ایسے واقعات سے مکمل پاک ہیں؟نہیں صاحبان! یہ کہنا بالکل منافقت ہو گی ۔اس قسم کے واقعات پورے ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔

کیا ملک کے بعض علاقوں میں ’’لخت‘‘ کا کلچر آج بھی موجود نہیں ہے۔ مگر مانے گا کوئی بھی نہیں۔بڑے شہروں کے ہر بڑے چوک میں‘ مرد‘ عورتوں کا لباس زیب تن کیے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سے ہر طبقے کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔مگر کوئی بھی اس کا اقرار نہیں کرے گا۔

میری بات غور سے سنیے۔ پاکستان میں گرم پانی بنانے کے تین چار بڑے کارخانے ہیں۔ قانون کے اعتبار سے تو یہ شراب صرف غیر مسلم استعمال کر سکتے ہیں ۔ مگر کیا ہماری غیر مسلم کمیونٹی اتنی آسودہ حال ہے کہ اتنی مہنگی ’’دختررز‘‘ استعمال کر سکے ۔ اس شراب نوشی میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ بات یہاں تک محدود نہیں ہے۔ یہ سارا کام چوری چھپے مگر پورے دھڑلے سے جاری ہے۔ مگر صاحب! اس پورے نظام کو تسلیم کوئی نہیں کرے گا۔

کرپشن کی طرف گہری نظر سے دیکھیے۔ دفتروں میں رشوت کے خلاف مذہبی اقوال نظر آئیں گے۔ مگر سارا دھندا‘ ان اقوال کی موجودگی میں ہو رہا ہے۔ ملک میں ہر سرکاری ملازم‘ ہر سیاست دان‘ ہر اہلکار‘ ہر فرد کا خصوصی ریٹ ہے ۔ یہاں ہر ایک کا اپنا طریقہ واردات ہے۔ کسی نے مذہبی رنگ رچایا ہوا ہے۔ وہ دو چار ماہ بعد بڑا داؤ لگاتا ہے اور پھر بگلہ بھگت بن جاتاہے۔ کوئی ماڈرن روپ میں اپنی جیب گرم کر رہا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ صرف مرد سرکاری ملازم‘ اس بازار میں اپنا حصہ وصول نہیں کر رہے ۔ اس میں خواتین افسر بھی برابر کی شریک ہیں۔

مصر کے بازار میں سرکاری عمال‘ بغیر تفریق جنس بھرپور طریقے سے برائے فروخت حاضر ہیں۔ ہر سیاست دان کی کہانی اب سب کے سامنے ہے۔  مسئلہ روایتی دو عملی کا ہے۔ یہاں پر ہرسیاسی اور غیر سیاسی اہم انسان ‘ پاکبازی کا زبانی مجاہد ہے۔

ایک دیہلے کی کرپشن ‘ شفافیت‘ قومی خزانے کو فائدہ پہنچانے کے بے جان دعوے ہر وقت کیے جاتے ہیں ۔ مگر جب کوئی غلطی سے پوچھ لیں کہ جناب یہ پچیس سو کروڑ جناب کے اکاؤنٹ میں کہاں سے اور کیسے آیا۔ تو معصومانہ جواب ملتا ہے کہ معلوم نہیں۔ پھر گردان شروع ہو جاتی ہے کہ ہمارے دور میں دودھ کی نہریں اور شہد کے نلکے لگے ہوئے تھے۔ ہاں اگر برطانوی تحقیقاتی ادارے ہوتے تو پھر پتہ چل جاتا کہ ان کی دیانتداری کس بھاؤ بکتی ہے۔

عرض کروں گا کہ بڑے کرپشن کے کیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کو دے دیجیے۔ایک ماہ میں سب کچھ معلوم ہو جائیگا۔ اور شفافیت کا ٹیپ  ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کی واجبی حکومت میں کم از کم پنجاب میں تو ہر سطح پر قیامت خیز کرپشن ہے۔ ہر اہم آدمی دکان کھول کر بیٹھا ہے۔ ویسے ان تمام لوگوں نے اپنے اپنے لکھاری ‘ دانشور اور حاشیہ بردار پال رکھے ہیں جو ہر وقت طبلہ بجا کر ان کی فرضی ایمانداری کے گن گاتے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی کے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مگر حالات وہاں بھی ایسے ہی ہیں۔

عدالتی نظام کی طرف دیکھیے۔ تو خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے۔ عدالتی عملہ  دانت تیز کیے ہر سائل سے پیسے لینے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اکثر جگہ انصاف برائے فروخت ہے، ورلڈ جسٹس رپورٹ 2020میں درج ہے کہ پاکستانی عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں پست ترین ہے ۔ مگر اس پر کوئی ’’سو ؤموٹو نوٹس‘‘ نہیں ہوا۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ بلند ترین سطح سے کبھی یہ آواز نہیں آئی کہ اس رپورٹ میں درج شدہ کوائف کی روشنی میں عدالتی اصلاحات کی جائیں۔ عدالتی نظام بھی دیگر اداروں کی طرح گل سڑ چکاہے۔ اور یہ بگاڑ طاقتور آدمی کے  فائدے میں ہے۔ لہٰذا اس کو درست کرنے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔

صرف لکھنے سے اگر ملک ٹھیک ہو جاتا ہے توشایداب تک ہو چکا ہوتا۔ یہ سب کچھ ایسا ہی چلتا رہے گا۔مگر قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ کر لرز جاتا ہوں جس کا مفہوم ہے کہ ’’جب قوموں میں ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتاہے تو ہم (خدا) ان پر ‘ ان سے بھی زیادہ ظالم ترین بیرونی قوم قابض کر دیتے ہیں‘‘۔ صرف مفہوم بیان کر سکتا ہوں۔مگر سوچیے۔ ہمارا عام آدمی موجودہ نظام کی بدولت کتنی مشکل میں ہے۔ اسے تو کوئی حکومتی سہولت دستیاب نہیں۔ ہر جگہ ذلت ہی ذلت ہے ‘ دھکے ہی دھکے ہیں۔ عام انسان تو اب ’’حشرات الارض ‘‘کی صف میں آن کھڑا ہوا ہے۔

اسے تو معلوم ہی نہیں کہ تہذیب یافتہ دنیا میں انسان اور اس کے حقوق کیسے ہوتے ہیں۔ اس کی جہالت‘ اس کے لیے زحمت نہیں بلکہ آسودگی ہے۔ اور اسے جاہل رکھنا ہمارے جیسے ملکوں کے قومی مفاد میں ہے۔ کیونکہ اگر انھیں معلوم ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے تو یہ ظالموں کو کچا چبا ڈالیں گے۔ مگر اطمینان رکھیے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔ اس معاشرے کو آئینہ دکھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ شائد اتنا بھیانک چہرہ دیکھ کر آئینہ ہی نہ ٹوٹ جائے۔ یہاں کوئی بھی آئینے میں اپنا بھیانک چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔