خبر اور اخبار

حمید احمد سیٹھی  اتوار 27 جون 2021
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

ایک اسکول کے فنکش میں تقاریرکے بعد ایک طالبعلم کو اظہار ِ خیال کے لیے موقعہ دیا گیا۔ دسویں کلاس کے اس اسٹوڈنٹ نے صدرِ مجلس سے اجازت لی کہ وہ پارلیمنٹ کے بارے میں یہ سوچ کر کہ اگرچہ اس کے اساتذہ روزانہ طالبعلموں کو لفظی شرافت، اخلاق، نیکی، خوش اسلوبی، مراتب خوش کلامی، لڑائی مارکٹائی سے گریزاور اپنا نقطہ نظر شریفانہ انداز میں دوسروں تک پہنچانے کی تلقین کرتے ہیںجب کہ عوام و خواص کے نمایندے گالی گلوچ کے علاوہ ایک دوسرے کے خلاف جوتم پیزار کے مناظر بذریعہ ٹیلیویژن ساری قوم اور دنیا کو دکھاتے پائے جاتے ہیں جو ایک طرح سے قومی خصلت کا نمونہ ہوتا ہے۔

طالبعلم نے مزید کہا کہ قوم کے منتخب نمایندے عوام اور خاص طور پر زیر ِ تعلیم بچوں کے لیے باعث تقلید ہونے چاہئیںلیکن چنُیدہ افراد کی قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے محترم ممبر جن کی ذمے داری ملک کے لیے سیاسی، معاشی، اخلاقی، دینی، قانونی، ترقیاتی، تعلیمی،ملکی سلامتی اور انصاف کے لیے قانون سازی کرنا ہی نہیں، ان تمام شعبوں کی نگرانی بھی لازم ہے۔ اسمبلی ہال کے اندرہی بدزبانی ، بدکلامی کے مرتکب ہونے کے بعد ہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ٹیلیویژن کے ناظرین نے مخالف گروپوں کو کھلے عام ایک دوسرے کو بازاری گالیاں دیتے اور جوتا بازی کرتے دیکھا۔

اُس طالبعلم کی بات ابھی مکمل نہ ہو پائی تھی کہ ایک اور اسٹوڈنٹ ہاتھ اونچا کر کے صدر ِ مجلس سے بات کرنے کا خواہشمند ہوا یعنی اجازت کا طالب ہوا۔ صدرِ مجلس چونکہ ہیڈ ماسٹر تھے اس لیے انھوں نے مسکرا کر اجازت دے دی اور مقرر سے کہا کہ خطاب مختصر ہونا چاہیے۔ مقر ر نے کہا ، ’’ جناب صبح سویرے اخبار آ جاتا ہے، اس سے ملکی حالات ناشتے سے بھی پہلے معلوم ہو جاتے ہیں۔ آج اخبار کی ہیڈ لائن تھی کہ ’’قومی اسمبلی میدان ِ جنگ بن گئی۔‘‘

یہ اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کا دوسرا دن تھا۔ اس میدان ِ جنگ کی Live  کوریج جو ساری دنیا میں دیکھی گئی، گھٹیا اور جہالت کا نمونہ تھی ۔ طالبعلم نے اتنی ہی تقریر کی تھی کہ صدرِ مجلس نے اس سے کہا کہ ہمارا ملک نہ صرف ایٹمی طاقت بلکہ ایک ایسے شخص کی جدو جہد سے وجود میں آیا ہے جسے ہم قائد ِ اعظم کہتے ہیں اور ملک اگرچہ سُست رفتاری سے لیکن ترقی کی طرف گامزن ہے۔

اگرچہ اس محفل میں بہت سے سینئر تجزیہ کار مدعو اور موجو د تھے لیکن ایک اور طالبعلم نے اپنی کرسی سے اُٹھ کر ہاتھ کھڑا کر کے چند فقرے ادا کرنے کی اجازت مانگ کر کہا کہ ہمارا ملک کبھی گندم، چینی، گھی، کپاس اور دیگر کئی اجناس میں خود کفیل ہونے کے علاوہ برآمد میںبھی بہت آگے تھا اور اس وقت مذکورہ اجناس باہر سے خرید کر انھیں اس قدر گرانی پیدا کر کے غریبوں ہی کی نہیں ملازمت پیشہ لوگوں کی چیخیں نکال رہا ہے۔

ایک بزرگ نے صاحب صدر سے اُٹھ کر اعتراض کیا کہ حیرت کی بات ہے کہ تجربہ کارمعیشت دانوں کی موجودگی میںگفتگو کے لیے تجزیہ کاروں کو وقت دینے کے بجائے اناڑی اسکول بوائز کو اظہار ِ خیال کے لیے سارا وقت دیا جا رہا ہے جس پر ایک طالبعلم نے اجازت لے کر کہا کہ ہم یہاں حاضر ہو کر سیاست کرنے کے بجائے سچ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم تو صرف حقیقت حال پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے گروپ بنا کر اکٹھے ہوئے ہیں۔

اب ایک نہیں تین چارا سٹوڈنٹ اکٹھے ہاتھ کھڑے کر کے اُٹھ کھڑے ہوئے جس پر صاحب صدر نے کہا ’’معلوم ہوتا ہے آج طلباء ہی کا دن رہے گا۔ ایک طالب علم نے کہا جو کرپٹ حکمران پیٹ بھرنے سے زیادہ کھاتے ہیں وہ اپنے چمچوں کو بھی کھلاتے پلاتے ہیں‘‘ دوسرے اسٹوڈنٹ نے ایک اور اخبار کی ہیڈ لائن پڑھی جو یوں تھی کہ ’’ حکمران کرپٹ ہوں تو ملک دیوالیہ ہو جاتے ہیں ‘‘۔ ایک اسٹوڈنٹ نے اخبار لہرا کر حمزہ شہباز کا بیان سنایا ’’عمران کی سونامی نے ملک تباہ کر دیا’’ ایک اورطالب علم نے شہباز شریف کا اخباری بیان سنایا ‘‘ عوام کی جیب خالی بجٹ جعلی ‘‘۔

ایک اسٹوڈنٹ نے اخبار لہرایا اور چیف جسٹس کا بیان پڑھ کر سنایا ’’ کراچی کے خلاف بڑی سازش ہوئی شہر تباہ کر دیا گیا ‘‘۔ اخبار کا تو کام ہی اچھی ہو یا بری خبر قارئین تک پہنچانا ہے لیکن جس قسم کی حکومت اور حزب ِ مخالف ہمارے ملک میں اس وقت موجود ہے ان کا تو کام ہی ایک دوسرے کو کاٹ کھانا ہے۔ اتفاق سے عدالت میں زیر ِ سماعت ایون فیلڈ اور العزیزیہ مقدمات جن میں نواز شریف کو دس اور سا ت سال کی سزائیں ہوئیں، ان کے خلاف فیصلہ آ گیا ہے ۔ دونوں اپیلیں خارج اور سزائیں بحال یعنی Convicted absconder  نواز شریف اور اس کے حواریوں کے لیے بُرا وقت قائم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔