- کراچی میں نیول، رینجرز ہیڈ کوارٹرز، گورنر، سی ایم ہاؤس، سب کا فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہے، چیف جسٹس
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
لکھنے کا عمل بچوں میں سیکھنے اور سبق یاد کرنے میں مددگار ہوتا ہے
نیویارک: آج کے اس کمپیوٹرزدہ عہد میں لکھنے کا عمل بہت کمزور ہوگیا ہے، لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ قلم اور کاغذ کی اہمیت اب بھی باقی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مسلسل لکھنے اور یاد کرنے کے بعد سبق کو کاغذ پر منتقل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
جان ہاپکنزیونیورسٹی سے وابستہ دماغی اکتساب کی ماہرڈاکٹر برینڈا رائپ کہتی ہیں کہ والدین اور اساتذہ پوچھتے ہیں کہ بچوں کو دستی تحریر (ہینڈ رائٹنگ) کرنے کی آخرکیا ضرورت ہے؟َ ڈاکٹر برینڈا کا جواب ہے کہ بچہ جب لکھتا ہے تو ایک جانب اس کے دماغی حصے سرگرم ہوتے ہیں تو دوسری جانب اسے سبق یاد کرنے اور سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر برینڈا نے یہ تحقیق سائیکولوجی نامی تحقیقی جرنل میں شائع کرائی ہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ سروے کیا جس میں 42 افراد کو شامل کیا گیا۔ انہیں عربی حروفِ تہجی سکھائے گئے اور پھر انہیں تین گروہوں میں بانٹا گیا، ایک گروہ لکھنے والوں کا تھا، دوسرا گروپ ٹائپ کرنے والے اور تیسرا گروہ ویڈیو دیکھنے والوں کا تھا۔
ہر ایک نے ویڈیو دیکھ کر حروف سیکھے اور پھر آوازیں سن کر انہیں لکھا۔ پھر ہر رضاکار کو حرف سے واقف کرانے کے بعد تینوں گروہوں کو صرف دیکھنے اور سننے کے بعد الفاظ یاد کرنے اور دوہرانے کو کہا گیا۔
ویڈیو والے گروپ کو اسکرین پر کسی جھماکے کی صورت میں حروف دکھائے گئے اور پوچھا گیا کہ کیا یہ وہی حرف یا حروف ہیں جو اس سے قبل انہوں نے دیکھے ہیں۔ ٹائپ کرنے والوں کو مطلوبہ حرف کی بورڈ پر تلاش کرنا تھا جبکہ لکھنے والے افراد کو قلم سے کاغذ پر وہ حرف لکھنا تھا۔
اس طرح مسلسل چھ سیشن کرائے گئے۔ آخر میں ہر گروپ کے لوگ دیکھے گئے الفاظ پہچاننے لگے لیکن ہاتھ سے تحریرکرنے والے گروہ ان سب پر بازی لے گئے۔ نہ صرف انہوں نے حروف کو جلدی پہچانا بلکہ ان میں یاد کرنے کا عمل بھی تیز رہا۔ اس کے بعد مزید ٹیسٹ کئے گئے تب بھی ہاتھوں سے لکھنے والے افراد اجنبی حروف سمجھنے اور یادکرنے میں سب سے آگے رہے۔
اس طرح ثابت ہوا کہ لکھ کر سمجھنے اور یاد کرنے کا عمل سب سے مؤثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے لکھی تحریر دماغی نیورون کو متحرک کرتی ہے اور ساتھ ہی بصری اور لفظی ڈیٹا بھی حاصل ہوکر سیکھنے کے عمل کو کئی طرح سے مضبوط کرتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔