Solicite

جاوید چوہدری  منگل 27 جولائی 2021
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

شوکت مقدم پاکستان نیوی کے سابق آفیسر ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد دو ملکوں جنوبی کوریا اور قزاقستان میں پاکستان کے سفیر رہے‘ ان کی دو صاحب زادیاں اور ایک بیٹا ہے‘ دوسری بیٹی کا نام نور مقدم تھا‘ نور 20 جولائی کی شام ہولناک طریقے سے قتل ہو گئی اور اس قتل نے پورے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا۔

لوگ پانچ دن سے دہشت زدہ ہیں ‘ نور کے ساتھ کیا ہوا؟ اس طرف آنے سے پہلے میں آپ سے ایک دوسری فیملی کا تعارف بھی کراؤں گا‘ پاکستان میں جعفربرادرز کے نام سے ایک بڑا بزنس گروپ ہے‘ یہ لوگ کھربوں روپے کے مختلف کاروبار کرتے ہیں۔

جعفربرادرز کے ایک بھائی عبدالقادر جعفر لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہے ہیں‘ ان کے صاحب زادے ذاکر جعفر بھی ارب پتی ہیں‘ ذاکر جعفر کا بزنس برطانیہ اور امریکا تک پھیلا ہوا ہے‘ کراچی میں رہتے ہیں لیکن امراء کی طرح انھوں نے بھی اپنا ایک گھر اسلام آباد کے پوش ایریا ایف سیون فور میں بنا رکھا ہے اور فیملی کراچی اور اسلام آباد دونوں جگہوں پررہتی ہے‘ ذاکر جعفر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور بیگم عصمت کا تعلق آدم جی فیملی سے ہے‘ ذاکر جعفر کے بڑے بیٹے کا نام ظاہر ذاکر جعفر ہے‘ یہ عرف عام میں ظاہر جعفر کہلاتا ہے۔

امریکا میں پیدا ہوا‘ نیوجرسی میں پڑھتا رہا ‘لندن میں بھی زیر تعلیم رہا اور یہ آج کل پاکستان میں رہتا تھا‘ دنیا میں پاگل پن کی نو وجوہات ہوتی ہیں‘ پہلی تین وجوہات دولت‘ دولت اور دولت ہے‘ ظاہر جعفر سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا لہٰذا اس میں وہ ساری خرابیاں موجود ہیں جو عموماً دولت مندوں میں ہوتی ہیں‘ تکبر‘ بدتمیزی‘ ظلم اور نشہ‘ میرے ایک دوست ایسے نوجوانوں کو پائلٹ کہتے ہیں‘کیوں؟

کیوں کہ یہ نوجوان اپنے والدین کی دولت اڑاتے ہیں لہٰذا یہ پائلٹ ہوتے ہیں‘ ظاہر جعفر بھی پائلٹ تھا‘ یہ بھی دن رات والدین کی دولت اڑاتا تھا‘ نور مقدم اور ظاہر جعفر دوست تھے‘ یہ ’’لیونگ ریلیشن شپ‘‘ میں تھے‘ ایک دوسرے کے ساتھ گھومتے پھرتے اور کھاتے پیتے رہتے تھے‘ خاندان بھی ایک دوسرے کو جانتے ہیں‘ 19 جولائی کو عید سے پہلے نور مقدم اچانک گھر سے غائب ہو گئی۔

والدین نے تلاش کیا‘ وہ نہ ملی‘ فون بھی بند آ رہا تھا‘ شوکت مقدم نے ذاکر جعفر سے رابطہ کیا‘ ذاکر جعفر نے جواب دیا‘ میں کراچی میں ہوں‘ میں نے پتا کیا  لیکن نور ظاہر کے ساتھ نہیں ہے‘ والدین نے تشویش کے عالم میں ہر طرف فون کرنا شروع کر دیے‘ اس دوران نور کا فون آن ہوا اور اس نے والدہ کو بتایا‘ میں دوستوں کے ساتھ لاہور آئی ہوئی ہوں‘ کل پرسوں تک آ جاؤں گی‘ والدہ مطمئن ہو گئی‘ 20 جولائی کو کہانی کھلی‘ وہ لاہور نہیں تھی‘ وہ ظاہر جعفر کے ساتھ اس کے گھر میں تھی اور ذاکر جعفر نے شوکت مقدم (لڑکی کے والد) کے ساتھ جھوٹ بولا تھا‘ 20 جولائی چار بجے نور اور ظاہر کا جھگڑا ہوا اور ظاہر نے اسے مارنا شروع کر دیا۔

نور نے جان بچانے کے لیے روشن دان کھول کر پہلی منزل سے چھلانگ لگا دی‘ وہ گرل کے ساتھ بھی ٹکرائی اور فرش پر گرنے سے زخمی بھی ہو گئی‘ گھر پر اس وقت دو ملازم تھے‘ جمیل احمد اور محمد افتخار‘ ان میں سے ایک خانساماں تھا اور دوسرا چوکی دار‘ یہ جوان لوگ ہیں‘ نور ان کے سامنے فرش پر گری اور گھسٹ کر گیٹ کی طرف بڑھنے لگی‘ وہ چوکی دار کی منتیں کر رہی تھی تم گیٹ کھول دو‘ ظاہر مجھے مار دے گا لیکن وہ پتھر بن کر کھڑا رہا‘ ظاہر جعفر تیزی سے سیڑھیوں سے نیچے آیا اور نور کو بالوں سے گھسیٹتے ہوئے دوبارہ اوپر لے گیا۔

وہ اس کا سر سیڑھیوں پر بھی مارتا رہا‘ یہ دن ساڑھے چار بجے کا واقعہ تھا‘ ملازمین نے فون کر کے ظاہر کے والد ذاکر جعفر کو بتادیا لیکن اس نے اگنور کر دیا‘ ظاہر نے اس کے بعد نور کو بالائی منزل پر ٹارچر کرنا شروع کر دیا‘ اس نے اس کے جسم میں چار جگہ چاقو مارا‘ ایک بڑا زخم چھاتی پر بھی تھا‘ وہ اس کی منتیں کرتی رہی لیکن وہ اس کے جسم کو چاقو سے کاٹتا رہا‘ نور نے اپنے فون سے ویڈیو کالز کی کوشش بھی کی اور شور بھی کیا لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا‘ ظاہر نے اس دوران اپنے والد کو فون کر کے بتایا‘ نور میرے ساتھ شادی نہیں کر رہی‘ میں اسے قتل کر رہا ہوں‘ والد نے اس بات کو بھی سیریس نہیں لیا‘ ملازمین نے اس دوران ایک بار پھر والد کو بتایا کمرے کے اندر سے چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں اور لوگ گھر کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ والد نے چوکی دار سے کہا‘ تم فکر نہ کرو‘ میں ابھی تھراپی سینٹر والوں کو بھیجتا ہوں۔

ہم اسٹوری کو یہاں روک کر تھراپی سینٹر کی طرف آتے ہیں‘ اسلام آباد کے ایف سیون سیکٹر میں دو بھائیوں دلیپ کمار اور وامق ریاض نے تھراپی سینٹر کے نام سے اعلیٰ طبقے کے بچوں کے لیے نفسیاتی ری ہیبلی ٹیشن سینٹر بنا رکھا ہے‘ یہ سینٹر پارٹیوں کے دوران امراء کے بچوں کو سنبھالتے ہیں‘ ذاکر جعفر نے وامق ریاض کو فون کیا اوربڑے عام سے لہجے میں کہا ’’وامق میرے گھر میں کسی کو بھجوا دو وہاں ظاہر کسی لڑکی کے ساتھ Solicite کر رہا ہے‘ Solicite اعلیٰ طبقے کی انگریزی میں غیرقانونی‘ غیراخلاقی جنسی تعلق کو کہتے ہیں‘ والد کا لہجہ اتنا معمولی تھا کہ ڈاکٹر بھی حیران رہ گیا‘ بہرحال تھراپی سینٹر نے اپنی ٹیم بھجوا دی‘ اس دوران ظاہر اور نور کے دوست بھی ان کے گھر پہنچ گئے۔

وہ گیٹ پر کھڑے تھے اور ٹیلی فون پر ظاہر کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے‘ تھراپی سینٹر کی ٹیم نے ظاہر کو دروازہ کھولنے کا کہا‘ اس نے انکار کر دیا‘ ٹیم لیڈر امجد سیڑھی لگا کر اوپر گیا‘ اس نے کھڑکی توڑی اور اندر کی صورت حال دیکھ کر سکتے میں آگیا‘ پورے کمرے میں خون تھا جب کہ نور کا سر جسم سے الگ دور پڑا تھا‘ امجد نے ٹیم کو آواز دی‘ فوراً اوپر آ جاؤ لیکن ٹیم کے پہنچنے سے پہلے ہی ظاہر نے امجد پر حملہ کر دیا‘ گولی چلائی لیکن گولی پستول میں پھنس گئی‘ اس نے اس کے بعد امجد پر چاقو سے حملہ کر دیا‘ چاقو امجد کے جگر میں لگ گیا لیکن وہ بہرحال اس سے لڑتا رہا اور اس نے اسے گرا لیا‘ اس دوران ٹیم آ گئی اور اس نے ظاہر کو باندھ دیا‘ ہمسائے یہ افراتفری دیکھ رہے تھے‘ ایک ہمسائے نے پولیس بلا لی‘ پولیس بھی اندر داخل ہو کر سکتے میں آ گئی۔

پولیس نے ظاہر ذاکر جعفر کو گرفتار کر لیا ‘ شوکت مقدم کو بھی سانحے کی اطلاع دے دی گئی‘ ظاہر کا والد کراچی سے واپس آ گیا اور آ کر پولیس پر چڑھائی کر دی‘ اس کا بار بار کہنا تھا ’’آپ میرے بیٹے کو قاتل کہنے والے کون ہوتے ہیں‘ یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے‘‘ پولیس نے اسے سمجھایا لیکن دولت میں اگر تکبر نہ ہو تو پھر دولت‘ دولت نہیں ہوتی‘ ذاکر جعفر نے وکلاء کی لائن بھی لگا دی اور ہر طرف سے دباؤ بھی ڈالنا شروع کر دیا لیکن میں یہاں پولیس کی تعریف کروں گا بالخصوص ڈی آئی جی افضال احمد کوثر قابل تعریف ہے۔

یہ شخص دباؤ میں نہیں آیا‘ اس نے تفتیش کرائی اور جب یہ ثابت ہو گیا اگر ظاہر جعفر کے والدین معاملے کو سیریس لے لیتے یا اپنے بیٹے کو سپورٹ نہ کرتے تو نور مقدم بچ سکتی تھی تو اس نے ذاکر جعفر اور ان کی بیگم عصمت آدم جی کو بھی گرفتار کر لیا اور ان دونوں ملازمین کو بھی پکڑ لیا جو اگر اس وقت ذرا سی کوشش کر لیتے‘ پولیس کو اطلاع کر دیتے یا کسی ہمسائے کو بلا لیتے تو بھی نور بچ سکتی تھی‘ ذاکر جعفر اور ان کی بیگم عصمت آدم جی نے گرفتاری سے بچنے کی ساری کوششیں کیں‘ ریمانڈ کے وقت بھی وکلاء کی لائن لگا دی لیکن بہرحال پولیس کی استقامت کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہو گئی اور اب قاتل ظاہر جعفر‘ اس کے والدین اور ملازمین سب حوالات میں ہیں‘ جعفر فیملی اب قاتل ظاہر جعفر کو بچانے کے لیے اسے نفسیاتی مریض اور نشئی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ لوگ جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلا رہے ہیں ’’یہ امریکا میں بھی جیل میں رہا اور اسے لندن سے بھی وائلنس کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ‘یہ بھی پتا چلا ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کو جب نور کے قتل کا علم ہو گیا تو انھوں نے تھراپی سینٹر کے ساتھ مل کر ظاہر جعفر کو نفسیاتی مجرم بنانے کی کوشش کی‘ پولیس کوبھی گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی‘ پولیس گیٹ پھلانگ کر اندر گئی تھی‘ پولیس نے جب ظاہر کو گرفتار کیا تھا تووہ اس وقت بھی ہوش وحواس میں تھا اور یہ آج بھی مکمل سینسز میں ہے‘ آپ اس کی چالاکی دیکھیے‘ یہ پولیس کے ہر سوال پر ایک ہی جواب دیتا ہے ’’میں امریکی شہری ہوں‘ مجھ پر پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا اور آپ مجھ سے میرے وکیل کے ذریعے سوال کریں‘‘ یہ پولیس کو بیان نہیں دے رہا‘ والدین نے بھی اس کے دماغی توازن کی خرابی کی رپورٹس بنوانی شروع کر دی ہیں۔

نور مقدم کیس‘ افغان سفیر کی بیٹی کا واقعہ اور عثمان مرزا کیس سڑتے ہوئے جوہڑ کا صرف ایک جھونکا ہیں‘ اسلام آباد میں ایسے سیکڑوں ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں اور روز ہو بھی رہے ہیں‘ شہر پارٹیوں‘ نشئیوں اور امراء کے بچوں کی واہیات حرکات کا سرکس بن چکا ہے‘ آپ رات کے وقت سڑک پر نہیں نکل سکتے کیوں کہ نشے میں دھت لوگ آپ کو کچل جائیں گے اور ان کے والدین بڑے آرام سے ’’میرے بچے Soliciteکر رہے تھے‘‘کہیں گے اور بچے اگلی فلائٹ پکڑ کر باہر چلے جائیں گے‘یہ ہے اسلام آباد‘شہر کے نام پر جنگل۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔