’’اپنا بیڈ ٹھیک کرو‘‘

قاسم علی شاہ  اتوار 12 ستمبر 2021
امریکن نیوی کے ایڈمرل (ر) ولیم میکریوین نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے کیا سبق سیکھے؟ ۔  فوٹو : فائل

امریکن نیوی کے ایڈمرل (ر) ولیم میکریوین نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے کیا سبق سیکھے؟ ۔ فوٹو : فائل

آپ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام کیا کرتے ہیں؟

عام طورپر اکثر لوگ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنا موبائل فون چیک کرتے ہیں۔ کچھ جاگتے ہی بیڈ ٹی کے نام پر چائے کا کپ پیتے ہیں اور اس کے بعد باقی کام کرتے ہیں۔

کچھ لوگ باتھ روم جاکر منہ ہاتھ دھوتے یا شاور لیتے ہیں اور کچھ لوگ صبح جاگ کر بھی بستر پر لیٹے رہتے ہیں، وہ جاگ تو جاتے ہیں لیکن ان میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور کافی سارا وقت بستر پر لیٹے لیٹے گزار کر پھر اٹھتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنا بیڈ ٹھیک کرتے ہیں، تکیہ درست کرتے ہیں، موبائل، کتابیں اور دوسری چیزیں اپنی اپنی جگہوں پر رکھتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے کاموںکی طرف بڑھتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو ایک عام سی بات ہے لیکن درحقیقت یہ عام سی بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ موجود ہے۔

2014ء میں یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن (امریکہ) میں گریجویشن کے طلبہ کی اختتامی تقریب تھی، اس تقریب میں ایک شخص نے خطاب کیا لیکن وہ خطاب اس قدر شاندار تھا کہ اب تک سوشل میڈیا پر اس کو ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ دیکھ اور سن چکے ہیں۔ یہ امریکن نیوی کے سابق سیلر ایڈمرل (ر) ولیم میکریوین تھے، جنہوں نے بڑی سخت زندگی گزاری۔ ولیم نے اس خطاب میں اپنی پروفیشنل زندگی کے بارے میں کچھ ایسی بہترین ٹپس دیں کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ان کایہ خطاب جس نے بھی سنا، اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی بدلائو ضرور آیا۔

2017ء میں ولیم میکریوین نے اپنی پروفیشنل زندگی کے ان ہی تجربات پر” “Make Your Bed کے نام سے ایک شاندار کتاب لکھی ۔اس کتاب نے آتے ہی تہلکہ مچا دیا اور بہت جلد نیویارک ٹائم بیسٹ سیلر کی فہرست میں شامل ہوگئی۔ اس کتاب میں ولیم میکریوین نے کچھ ایسے اصول بتائے ہیں جن کو اپنا کر انسان زندگی میں بھرپور ترقی کرسکتا ہے اور اپنی مشکلات کو حل کرسکتا ہے۔

ولیم میکریوین جس وقت نیوی میں زیر تربیت تھا تو وہ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام یہ کرتا کہ اپنی بیڈ کی چادر جھاڑتا، میٹرس ٹھیک کرکے اس پر چادر بچھاتا اور تکیے سے شکنیں دور کرکے سلیقے کے ساتھ رکھتا۔ یہ کام وہ اس قدر بہترین انداز میں کرتا کہ چادر کے اوپر ایک معمولی شکن بھی دیکھنے کو نہ ملتی۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کا انسٹرکٹر روز اس کا بیڈ چیک کرتا اور جس روز بھی اس کے بیڈ پر معمولی سی شکن بھی ہوتی تو پھر ولیم کی شامت آ جاتی۔ بطورِ سزا اس کو ساحل سمندر پر بھیج دیا جاتا اور اس کو حکم ہوتا کہ پہلے پانی میں خود کو گیلا کرو اور اس کے بعد ساحل کی ریت پر لوٹ پوٹ ہوکر اپنا پورا جسم ریت سے بھر دو۔ یہ ایک تکلیف دہ سزا تھی، جس سے بچنے کے لیے ولیم روز اپنا بیڈ مکمل طورپر ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کرتا اورپھر رفتہ رفتہ یہ ولیم کی پکی عادت بن گئی اور اسی ایک عادت کی وجہ سے اس کو شاندار ترقیاں ملیں۔

دراصل صبح اٹھ کرجب انسان سب سے پہلے اپنے بیڈ کو درست کرتا ہے تو اس کے اندر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ میں نے دِن کا آغاز ایک کام کو بہترین انداز میں مکمل کرنے سے کیا ہے۔ اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور اس کے بعد پورے دِن میں جتنے بھی کام کرنے ہوتے ہیں، چاہے وہ مشکل سے مشکل ہی کیوں نہ ہوں توصبح بیڈ ٹھیک کرکے ملنے والے حوصلے کی بدولت انہیں بخوبی انجام دے دیتا ہے۔

روزانہ یہ کام کرنے سے انسان کے اندرڈسپلن پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ ہر کام پرفیکٹ طریقے سے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کتاب کا پہلا سبق ہے کہ روز اپنا بیڈ ٹھیک کرکے اٹھیں تاکہ آپ کے اندر ڈسپلن اور احساس ذمہ داری پیدا ہو، آپ زندگی میں آنے والے ہر کام کو بہترین انداز میں کریں اور یوں آپ ترقی کرتے جائیں گے۔

ٹریننگ کے دوران ایک دفعہ ایسا ہو اکہ ولیم نے اپنے اس دِن کا ٹاسک پورا کر لیا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے انسٹرکٹر نے اس کو بطورِ سزا ساحل پر جاکر، اپنے جسم پر ریت ملنے کا حکم دیا ۔ ولیم اٹھا، اور چپ چاپ جاکر حکم کی تعمیل کی اور پھر واپس آکر اپنے انسٹرکٹر کے سامنے پیش ہوا۔ انسٹرکٹر نے پوچھا: ’’ولیم! تم نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ تمہیں یہ سزا کیوں ملی؟‘‘ دراصل میں تمہیں ایک سبق سکھانا چاہتا تھا۔ اس وقت تمہار ا کوئی قصور نہیں تھا، تم سزا کے مستحق نہیں تھے لیکن پھر بھی تمہیں سزا مل گئی۔

دراصل تمہیں یہ سکھانا مقصود تھا کہ زندگی ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی، کبھی کبھار ہمیں ایسی سزائوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہوتا لیکن اس وقت نہ ہی گلہ کرنا ہے اور نہ ہی شکایت۔ بس چپ چاپ سزا کاٹنی ہے اور پھر اس لمحے کو فراموش کرکے آگے بڑھنا ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا سبق ہے کہ زندگی ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھار تلخ بھی بن جاتی ہے اور انسان کو ایسا پٹختی ہے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں لیکن اس وقت کسی سے الجھنا نہیں، شکوہ نہیں کرنا، اپنی منزل پر نگاہ رکھنی ہے اور چلتے رہنا ہے۔

امریکن نیوی کی ٹریننگ میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جس میں سیلر کو Hell Week میں ایک ہفتہ گزارنا پڑتا ہے۔ اس ایک ہفتے کے دورانیے میںانہیں بدترین حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں ٹارچر بھی کیا جاتا ہے۔ ان کا کھانا پینا اور سونا بھی بدنظمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی دوران ایک دِن انہیں ایک مخصوص علاقے میں جانے کا آرڈر ملتا ہے۔ اس علاقے میں ہر طرف گیلی مٹی ہوتی ہے۔ جس پرکوئی بھی کھڑا نہیں رہ سکتا بلکہ گھٹنوں تک اس گیلی مٹی میںدھنس جاتا ہے ۔سیلرزکو کہا جاتا ہے کہ تم نے پورا دِن یہاں کھیلنا ہے۔ سارا دِن کھیل کھیل کر جب وہ تھک ہار جاتے ہیں تو اس وقت سورج غروب ہو رہا ہوتا ہے اور موسم کی ٹھنڈک بھی بڑھ رہی ہوتی ہے۔

سارے سیلرز تھکاوٹ، بھوک، پیاس اورسردی سے نڈھال پڑے ہوتے ہیں کہ ایسے میں ایک انسٹرکٹر انہیں ذہنی طورپر بریک ڈائون کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ ان کے سامنے آکر کہتا ہے: ’’تمہیں ابھی اسی وقت اس مصیبت سے نجات مل سکتی ہے۔ تمہیں آگ کے گرد بٹھالیا جائے گا اور کھانے کو گرم گرم سوپ بھی مل جائے گا، بس ایک شرط ہے۔تم میں سے پانچ آدمیوں نے ہمت ہار جانی ہے اور اعلان کرلینا ہے کہ ہم ہار گئے۔‘‘ جب ولیم کے گروپ کے ساتھ ایسا ہوا تو ان میں سے ایک سیلر اٹھا اور اس نے کہا: ٹھیک ہے میں ہار مانتا ہوں ۔

اس کاخیال تھا کہ میری دیکھا دیکھی اور لوگ بھی آجائیں گے اور ہمیں اس آزمائش سے نجات مل جائے گی۔ اتنے میں ایک جانب سے کسی سیلر نے ایک گانا گانا شروع کیا جس کے بول بہت ہی جذباتی تھے۔ یہ گانا سن کر باقی سب نے بھی اونچی آواز میں وہ گانا شروع کرلیا اور ان کی امید اورحوصلہ ایک بار پھر جوان ہوگیا اوروہ اپنے اس عمل سے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ جو بھی ہو ہم نے ہار نہیں ماننی۔

جس سیلرنے ہار مان لی تھی وہ بھی واپس ان کے ساتھ شامل ہوگیا اور سب کے سب گانا گانے لگے۔ ان کے چہرے جذبات سے تمتما رہے تھے اور وہ مکمل جوش کے ساتھ اس عمل میں اس حد تک مصروف ہوگئے کہ انسٹرکٹر کے چلانے کے باوجود بھی وہ خاموش نہ ہوئے اور مسلسل گاتے رہے۔ اس گانے کی وجہ سے سب کے چہروں پر چھائی تھکاوٹ، اداسی اور مایوسی ختم ہوگئی اوروہ تازہ دم ہوگئے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا سبق ہے کہ مشکل وقت میں جب سب لوگوں کا حوصلہ ماند پڑ چکا ہو اور وہ ہمت ہار چکے ہوں تو ایسے میں ایک انسان کی ہمت اور امید باقی سب میں بھی امید کا دیا روشن کر سکتی ہے۔

جس دِن ولیم میکریوین کی نیوی میں ٹریننگ شروع ہوئی، اس کے بیج فیلوز کی تعداد 150تھی۔ان کے انسٹرکٹر نے ان کی امیدوں کو توڑتے ہوئے کہا: ’’میں تمہیں بھرپور مشقت میں رکھوں گا، تمہیں ٹارچر کروں گا، تمہیں اس قدر آزمائش میں ڈالوں گا کہ تم ساری زندگی اس مرحلے کو یاد رکھوگے۔ اس لیے اس دوران اگر تم میں سے کوئی اس پرمشقت مرحلے سے بھاگنا چاہے تو وہ سامنے لگی بیل تین بار بجا سکتا ہے۔ اس کو آزادی مل جائے گی۔

وہ یہاں سے چلا جائے گا اور گھر میں ایک پرسکون زندگی گزارسکے گا، لیکن ۔۔۔۔یہ بات یاد رکھنا کہ اگر تم نے ہار مان لی اور اپنے حوصلے کوتوڑ دیا تو یہ ایک پچھتاوا بن جائے گا جو ساری زندگی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔‘‘ ٹریننگ کے اختتام پر 150میں سے صرف 33 لوگ باقی بچے تھے ۔ یہ اس کتاب کا چوتھا سبق ہے کہ زندگی میں چاہے جیسے بھی حالات پیش آئیں، کبھی ہار نہیں ماننا، اپنے جذبے کو تازہ رکھنا ہے تو پھر تمہیں ایساحوصلہ مل جائے گا جس کی بدولت ان سارے حالات کو برداشت کرسکوگے۔

ولیم میکریوین نے بھی ہار نہیں مانی، ایک سخت ترین ٹریننگ کے بعد وہ ایک قابل سیلر بنا ورپھر ایک شاندار کیرئیر اس کا منتظر تھا۔ وہ ترقی کرتے کرتے ایڈمرل کے عہدے تک پہنچ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن چکا ہے اور لوگ اس کے تجربات سے استفادہ کرکے اپنی زندگیوں کو سنوار رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔