بورڈ نے فرنچائزز کے مالی مسائل کا ’’حتمی‘‘ حل ڈھونڈ لیا

سلیم خالق  جمعـء 1 اکتوبر 2021
4 سال بعد مارکیٹ ویلیوکا غیرجانبدار کمپنی سے جائزے کے بعد فیس میں 25 فیصد اضافہ ہوگا
  فوٹو : فائل

4 سال بعد مارکیٹ ویلیوکا غیرجانبدار کمپنی سے جائزے کے بعد فیس میں 25 فیصد اضافہ ہوگا فوٹو : فائل

 کراچی:  بورڈ نے فرنچائزز کے مالی مسائل کا ’’حتمی‘‘ حل ڈھونڈ لیا جب کہ سینٹرل پول سے 95 فیصد حصہ دینے کی پیشکش کر دی گئی۔

پی سی بی نے 2016 میں 10 سال کیلیے 5پی ایس ایل فرنچائززکے مالکانہ حقوق فروخت کیے تھے،اس میں پھر ملتان سلطانز کا اضافہ ہوا، مالی مسائل کی وجہ سے بعد میں اس کے اونرزتبدیل بھی ہوئے، یہ معاہدے 2025 تک برقرار رہیں گے۔

فرنچائزز کا شروع سے موقف ہے کہ انھیں مالی نقصان کا سامنا ہے لہذا موجودہ فنانشل ماڈل تبدیل کیا جائے، گذشتہ برس معاملہ عدالت بھی پہنچ گیا بعد میں دونوں پارٹیز نے خود ہی بات چیت سے تنازع حل کرنے پر اتفاق کیا۔

سابق چیئرمین احسان مانی اور سی ای او وسیم خان نے مذاکرات شروع کیے،کئی ماڈلز پر کافی عرصے بحث کے بعد ایک پر کافی حد تک اتفاق ہو گیا، البتہ احسان مانی نے حکومت کی تبدیلی کی صورت میں قانونی پیچیدگیوں میں پڑنے کا جواز دے کر اسے خود منظوری نہیں دی۔

اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویز بھی مسترد ہو گئی،پھریہ معاملہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے سپرد کیا گیا، انھوں نے رپورٹ بنا کر پی سی بی کو پیش کر دی لیکن اسے فرنچائزز کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔

احسان مانی کے جانے پر نئے چیئرمین رمیز راجہ نے ٹیم مالکان و آفیشلز سے ملاقاتوں کیں اور اپنے ساتھیوں کی مشاورت سے ایک نیا ماڈل فرنچائزز کو بھیجا ہے، انھیں حتمی پیشکش کرتے ہوئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ نئے ریونیو ماڈل میں فرنچائزز کواخراجات منہا کرنے کے بعد سینٹرل پول سے95 فیصد حصہ دیا جائے گا،البتہ فیس کے لیے ڈالر کا موجودہ ریٹ فکسڈہوگا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں ان دنوں ڈالرکا ریٹ تاریخ میں سب سے زیادہ172 روپے تک پہنچ چکا ہے،اس سے فرنچائزز پر مالی بوجھ بڑھ جائے گا۔

ٹیموں کے دائمی حقوق دینے سے انکار کرتے ہوئے آئندہ چار سال بعد تمام فرنچائزز کی مارکیٹ ویلیو کاکسی غیرجانبدار پارٹی سے جائزہ لینے کے بعد جو رقم سامنے آئے فیس میں اس کا 25 فیصد اضافہ کردیا جائے گا،اس سے جس نے اپنی ٹیم کو بڑا برانڈ بنایا وہ زیادہ نقصان میں رہے گا،اس سے قبل احسان مانی 50 سال تک کے مالکانہ حقوق دینے پر آمادہ تھے، ہر سال ایونٹ سے 2 ماہ قبل آدھی فیس دینا ہوگی،25 فیصد درمیان اور باقی 25 فیصد ٹورنامنٹ ختم ہونے سے پہلے دینا لازمی ہے۔

دوسری جانب اونرز مجوزہ ماڈل کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں جس کے بعد بورڈ کو جواب دیا جائے گا،وہ دائمی حقوق، ڈالر کا پہلے طے ہونے والا ریٹ رکھنے کے حامی ہیں،بعض نے آئی پی ایل کی طرح 10 سال بعد فیس نہ دینے اور آمدنی سے حصہ بھی نہ دینے کی بھی تجویز دے دی، اس سے وہ اسپانسر شپ وغیرہ سے رقم کمائیں گے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ ٹیم اونرز نئے چیئرمین رمیز راجہ سے براہ راست محاذ آرائی بھی نہیں کرنا چاہتے، اس لیے معاملہ افہام و تفہیم سے طے کرنے کی کوشش ہوگی۔

واضح رہے کہ پی سی بی کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ فرنچائزز نے خود ہی معاہدے پر دستخط کیے تھے لہذا انھیں نفع نقصان کا خود اندازہ لگانا چاہیے تھا، اس کے جواب میں ٹیم مالکان کہتے ہیں کہ انھیں سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے سبز باغ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ لیگ پاکستان میں منتقل ہونے سے خوب منافع ہو گا البتہ ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔

مجوزہ ماڈل کی کامیابی کا زیادہ تر انحصار براڈ کاسٹنگ اور ٹائٹل اسپانسر شپ کے نئے معاہدوں پر ہوگا۔ اگر پی سی بی نے پہلے سے زیادہ بڑی ڈیل کر لی تو سینٹرل پول کی رقم میں اضافہ ہو جائے گا جس سے اونرز کی کچھ تسلی ہو گی۔

یاد رہے کہ پی سی بی کو پی ایس ایل فرنچائزز سے صرف فیس کی مد میں ہی سالانہ 15.65 ملین ڈالر مل جاتے ہیں،سینٹرل پول سے براڈکاسٹ ریونیو کا 20 فیصد، ٹائٹل و دیگر اسپانسر شپ کا 40فیصد اور گیٹ منی کا 30 فیصد حصہ ملتا ہے،سالانہ فیس مختلف ہونے کے باوجود تمام فرنچائزز سینٹرل پول سے یکساں حصہ پاتی ہیں۔

پی سی بی نے ٹیم مالکان کو ٹیموں کی دوبارہ نیلامی کرکے نئے معاہدوں کی بھی تجویز دی مگر وہ اس سے متفق نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔