پہلی مرتبہ خنزیر کا گردہ انسان میں منتقل کرنے کا کامیاب تجربہ

ویب ڈیسک  جمعرات 21 اکتوبر 2021
ستمبر 2021 میں نیویارک لینگون ہیلتھ میں خنزیر کا گردہ انسانی بدن میں پیوست کیا جارہا ہے۔ یہ گردہ ایک مردہ خاتون میں لگا کر اس کا کئی روز تک مشاہدہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ جو کیروٹا، اے پی

ستمبر 2021 میں نیویارک لینگون ہیلتھ میں خنزیر کا گردہ انسانی بدن میں پیوست کیا جارہا ہے۔ یہ گردہ ایک مردہ خاتون میں لگا کر اس کا کئی روز تک مشاہدہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ جو کیروٹا، اے پی

 نیویارک: انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ خنزیر کا گردہ کسی انسان میں لگا کر اس کا مطالعہ کیا گیا ہے تاہم یہ گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا گیا ہے جو ابھی مصنوعی سہاروں کی وجہ سے نیم مردہ حالت میں ہے۔

نیویارک یونیورسٹی میں واقع لینگون ہیلتھ ہسپتال کی ٹیم نے دیکھا کہ جب انہوں نے وینٹی لیٹر پر مصنوعی طریقے زندہ رکھے گئے نیم مردہ شخص میں سؤر کا گردہ لگایا تو وہ کام کرنے لگا اور انسانی بدن نے اسے بیرونی عضو کے طور پر مسترد بھی نہیں کیا جسے ’بایو رجیکشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے عشروں پرانے سوال کا جواب ملا ہے کہ کیا انسان میں جانور کا عضو بالخصوص گردہ لگایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح راہ کھلی ہے کہ جلد یا بدیر انسانی اعضا کی بڑھتی ہوئی طلب کو جانوروں سے پورا کیا جاسکے گا۔ اس کی ابتدا گردے سے ہی ہوگی کیونکہ وہ دیگر اعضا کے مقابلے میں کم پیچیدہ ہوتا ہے۔

اگرچہ خنزیرکے اعضا انسانوں میں منتقل پر ایک عرصے سے تجربات جاری ہیں۔ تاہم اس کے گردے میں خاص شکریات (شوگرز) کی وجہ سے انسانی امنیاتی نظام انہیں بیرونی حملہ قرار دے کر مسترد کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ انسانی گردہ لگانے کے بعد بھی مریض کو پوری زندگی مدافعتی نظام کو دبانے والی (امیونوسپریشن) دوائیں کھانا پڑتی ہیں۔

اسی لیے خنزیر کے گردے کو کئی جنیاتی تبدیلیوں سے گزارکر اس میں انسان بیزار شکریات کو ختم کیا گیا اور بعض تبدیلیوں کے بعد اسے ستمبر میں انسانی لاش پرآزمایا گیا۔

گردے کو خون کی دو بڑی نالیوں سے جوڑا گیا اور وہ انسانی جسم میں کام کرنے لگا۔ اس نے صفائی کی اور پیشاب بھی بنائی۔ تجربے میں شامل ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری کے مطابق یہ تجربہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ دوسری جانب اس تحقیق سے باہر جامعہ منی سوٹا کے ڈاکٹر اینڈریو ایڈم نے اسے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔

انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کی منتقلی کا عمل ’زینوٹرانسپلانٹیشن‘ کہلاتا ہے۔ اس کی ابتدا سترہویں صدی میں اس وقت ہوئی جب کتوں اور بلیوں کا خون انسانوں میں لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ڈاکٹر اینڈریو نے اسے درست سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چمپانزی اور بندروں کے اعضا انسانوں میں کیوں نہ لگایا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے اعضا انسانوں سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ اس سے قبل سؤروں کے دل کے والو بھی انسانوں میں لگائے جاچکے ہیں۔ خون پتلا کرنے والی ایک دوا ’ہیپارِن‘ خنزیروں کی آنتوں سے کشید کی جاتی ہے۔ چین میں سؤر کی جلد کے پیوند انسانوں میں کامیابی سے لگائے جاچکے ہیں۔

واضح رہے کہ گردہ ایک مردہ خاتون کو لگایا تھا گیا جس کے اقربا نے اس تجربے کی اجازت دیدی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔