پودوں کو ظاہری شکل سے شناخت کرنے والا نیا نظام

ویب ڈیسک  جمعـء 22 اکتوبر 2021
تصویر میں اسپکیٹروریڈیومیٹر سے ایک پودے کے پتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ فوتو: ڈوسن وائٹ، شکاگو فیلڈ میوزیم

تصویر میں اسپکیٹروریڈیومیٹر سے ایک پودے کے پتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ فوتو: ڈوسن وائٹ، شکاگو فیلڈ میوزیم

شکاگو: عموماً ایک ہی نوع کی دو مختلف آبادیوں سے تعلق رکھنے والے پودے اتنے یکساں ہوتے ہیں کہ ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لازمی ہوجاتا ہے۔ لیکن اب ایک اب ایک دستی آلے سے یہ کام فوری طور پر آسان اور کم وقت میں کیا جاسکتا ہے۔

اس کے لیے شکاگو فیلڈ میوزیم کے سائنسداں ڈوسن وائٹ کی سربراہی میں ان کی ٹیم نے یونیورسٹی آف مین کے لانس اسٹاسنسکی نے جینیاتی طور پرمختلف ’ڈریاس‘ نامی سدا بہار پیڑ کی دو الگ الگ آبادیوں کا جائزہ لیا۔ اس کے لیے ایک لمبا عمل کرنا پڑا۔ یعنی پہلے دومختلف مقامات سے پودوں کے نمونے جمع کئے گئے اور ہر ایک کو تجربہ گاہ میں ڈی این اے مطالعے سے گزارا گیا تو اس عمل میں ہفتے لگ گئے۔

اس کے علاوہ ڈی این اے آزمائش سے گزارے گئے تمام پودوں کو ایک دستی آلے سے بھی دیکھا گیا جسے ’اسپیکٹروریڈیومیٹر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ پتوں پر روشنی پھینکتا ہے اور وہاں سے لوٹنے والی روشنی کی طولِ موج (ویولینتھ) کا جائزہ لیتا ہے۔ ماہرین حیران رہ گئے کہ مشین نے فوری طور پر الگ الگ طور پر شناخت کرلیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں پودے ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں جن کے الگ الگ ہونے  کی تصدیق جینیاتی تجزیئے سے بھی کی گئی تھی۔ اس طرح ماہرینِ نباتیات کسی بھی موقع پرفوری طور پر دو یکساں پودوں کے فرق کو جان سکتے ہیں۔ یہ عمل جینیاتی ٹیسٹ کے مقابلے میں تیزرفتار اور بہت ارزاں ہے جس سے پودوں پر تحقیق کی رفتار بڑھائی جاسکتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ دوردراز علاقوں، دشوار گزار راستوں اور پہاڑوں پر موجود پودوں کی شناخت کے لیے یہ پورا نظام ڈرون پر لگا کر نباتاتی تحقیق کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق نیوفائٹولوجی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔