- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر خودکش دھماکا؛ 2 افراد جاں بحق
- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
سیٹلائٹ کو بغیر راکٹ کے مدار میں پھینکنے والی غلیل کی پہلی آزمائش
کیلیفورنیا: گزشتہ 50 برس سے راکٹ ہی سیٹلائٹ کی سواری بنے ہیں اور اب لانگ بیچ کیلی فورنیا کی ایک کمپنی ’اسپن لانچ‘ نے ایک غیر روایتی انداز سے سیٹلائٹ داغنے کا طریقے پر کام کیا ہے جس کی پہلی آزمائشی فلائٹ کی گئی ہے۔
اسپن لانچ کو دنیا کا پہلا حرکی راکٹ نظام کہا جاسکتا ہے جس پر 2015ء سے کام جاری ہے۔ اس کا مقصد خلا میں سیٹلائٹ بھیجنے کے کم خرچ اور ماحول دوست طریقہ وضع کرنا ہے۔
اسپن لانچ کے مطابق 22 اکتوبر کو ایک تجربہ کیا گیا جس کی تفصیل اب جاری کی گئی ہے۔ بس اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ نیو میکسیکو سے سیٹلائٹ کا ایک نمونہ آواز سے کئی گنا رفتار سے آسمان پر بھیجا گیا اور بعد میں اسے تلاش بھی کرلیا گیا۔
کمپن نے ایک گول ڈبیہ جیسی بہت بڑی طشتری بنائی ہے جس کی بلندی امریکی مجسمہ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس میں ہوا باہر نکال کر اندر ویکیوم قائم کیا گیا ہے۔ اندر کاربن فائبر کی ایک ڈور بنائی گئی ہے جسے ایک طاقتور موٹر سے گھمایا جاتا ہے، اس کے سرے پر سئٹلائٹ رکھا جاسکتا ہے۔
اب پورا نظام اس پروجیکٹائل کو 8047 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھماتا ہے جو آواز کی رفتار سے کئی گنا تیزہوتا ہے۔ اس کے بعد سیٹلائٹ کو 45 درجے پر چھوڑدیا جاتا ہے جو لانچ ٹیوب سے باہر نکل جاتا ہے اور مدار تک پہنچ جاتا ہے تاہم اس کے ساتھ تھرسٹر لگے ہوتے ہیں جو سیٹلائٹ کو دھکیلنے کے لیے مزید قوت فراہم کرتے ہیں۔
اس طرح چار گنا کم ایندھن خرچ ہوتا ہےاور روایتی راکٹ کے مقابلے میں سیٹلائٹ کو داغنے کا خرچ بھی 10 درجے کم ہوسکتا ہے۔ اس پورے سسٹم کو ایل 100 آربٹل ماس ایسلیریٹرکا نام دیا ہے جو 200 کلوگرام تک وزنی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیج سکتا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ جب پورا اندرونی نظام ہولناک رفتار سے سیٹلائٹ کو گھماتا ہے تو اس پر عام ثقلی اثر سے 10000 گنا زائد قوت لگتی ہے ۔ اب یہاں ضروری ہے کہ سیٹلائٹ کے اندر کا باریک سرکٹ اور حساس نظام اس قوت کو برداشت کرسکے اور ماہرین کے مطابق ان کے تیارکردہ سیٹلائٹ اس قابل ہیں۔
دلچسپ بات ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے راکٹ کے بنا زمین سے سیٹلائٹ مدار تک بھیجنے کے کئی پروگرام شروع کیے تھے۔ امریکا اور کینیڈا نے 1960ء میں پروجیکٹ ہارپ شروع کیا اور اس کے بعد عراقی صدر صدام حسین نے بابل کے نام سے ایک کوشش کی لیکن اس میں شامل اہم سائنس داں کو قتل کردیا گیا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔