منزل کے قریب کشتی ڈوب گئی

سلیم خالق  ہفتہ 13 نومبر 2021
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں قسمت شروع سے پاکستان ٹیم کے ساتھ رہی، ہمیں نسبتاً آسان گروپ ملا۔ فوٹو؛ سوشل میڈیا

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں قسمت شروع سے پاکستان ٹیم کے ساتھ رہی، ہمیں نسبتاً آسان گروپ ملا۔ فوٹو؛ سوشل میڈیا

’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘

اگر آپ پاکستانی کرکٹ شائق ہیں تو یہ گانا یقیناً کئی بار سن چکے ہوں گے، کھلاڑی ہمارے دوست اور بھائی ہیں،ہمیں ان سے پیار ہے اور رہے گا لیکن اس بار ہار کا سب کو کچھ زیادہ ہی دکھ ہوا،منزل کے قریب کشتی ڈوب گئی،ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں قسمت شروع سے پاکستان ٹیم کے ساتھ رہی، ہمیں نسبتاً آسان گروپ ملا، بھارت اور نیوزی لینڈ کو چھوڑ کر دیگر ٹیمیں اتنی مضبوط نہیں تھیں، ٹورنامنٹ بھارت سے یو اے ای منتقل ہو گیا جہاں ہمارے کرکٹرز نے اپنی بیشتر انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی ہے۔

پچز سمیت کنڈیشنز سے وہ بخوبی آگاہ ہیں، اہم میچز میں ٹاس کا سکہ بھی ہمارے رخ پر گرا، کھلاڑیوں نے بلاشبہ بہترین پرفارم کیا بھارت اور کیویز کے خلاف فتوحات قابل دید تھیں،شاہین شاہ آفریدی نے بلو شرٹس کے  خلاف لاجواب ابتدائی اسپیل کیا،بیٹنگ میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے بڑی شراکت بنا کر ٹیم کو سرخرو کرایا،اسی طرح نیوزی لینڈ کے خلاف حارث رؤف کی بولنگ زبردست رہی، شعیب ملک اور آصف علی نے اچھی بیٹنگ کی،افغانستان کیخلاف آصف کے چھکوں نے فتحیاب کرایا ورنہ ایک موقع پر تو شکست کے آثار نمایاں تھے۔

نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کو ہرانے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی،ہر میچ کا مرد میدان کوئی نیا کھلاڑی رہا،اس سے ظاہر ہوا کہ سب ذمہ داری لے رہے ہیں، مسلسل 5 فتوحات نے عوام کی توقعات آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیں، سب کو ایسا لگ رہا تھا بس اب ٹرافی کو گھر لانا یقینی ہے، مگر جب آپ کی ٹیم ناقابل تسخیر بنی ہوئی ہو تو ایک بْرا دن ضرور آتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ ایسا سیمی فائنل میں ہوا۔

ماضی میں بھی کینگروز کیخلاف ناک آؤٹ میچز بھی ہماری ٹیم پھنس جاتی تھی، اس بار بھی یہی ہوا، ٹاس ہارنے سے نقصان پہنچا مگر آسٹریلوی فیلڈرز نے کیچز ڈراپ کر کے بڑا اسکور بنانے کا اچھا موقع دے دیا، رضوان نے ایک بار پھر بہترین اننگز کھیلی،جس طرح بیٹنگ کنسلٹنٹ میتھیو ہیڈن نے بتایا کہ پھیپڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے میچ سے ایک رات قبل تک وہ اسپتال میں تھے۔

آپ سوچیں کہ وہ کیسا انسان ہوگا جوصحت کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف ٹیم کو جتوانے کیلیے میدان میں اترا، ہمیں رضوان پر ناز ہے، ٹیم کے لیے کچھ کر دکھانے کا یہی جذبہ تمام کھلاڑیوں میں آ جائے تو یقیناً ہم اہم مقابلے بھی جیتنے لگیں گے، فخر زمان نے بھی اچھی اننگز سے سابقہ ناکامیوں کا ازالہ کرنے کی مناسب کوشش کی،میچ میں ٹیم سے کئی غلطیاں ہوئیں، حسن علی پورے ٹورنامنٹ میں بجھے بجھے دکھائی دیے، سیمی فائنل میں بھی وہ مہنگے ثابت ہوئے،پھر اہم موقع پر میتھیو ویڈ کا کیچ بھی ڈراپ کردیا، اب ساری توپوں کا رخ حسن کی جانب ہو گیا ہے۔

کھلاڑی بھی انسان ہیں، وہ غلطی ضرور کریں گے، یہ کیچ بابر اعظم سے بھی ڈراپ ہو سکتا تھا، حسن نے حالیہ  عرصے میں عمدہ کھیل پیش کیا ہے، صرف ایک ٹورنامنٹ اچھا نہیں گیا، سارا ملبہ ان پر نہیں گرانا چاہیے، اسی طرح شاہین ہمیں کئی میچ جتوا چکے، اسی ٹورنامنٹ میں بھارت کے خلاف فتح دلائی، اب اگر انھیں مسلسل تین چھکے پڑ گئے تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں، البتہ ایسا دکھائی دیا تھا کہ کیچ ڈراپ ہونے سے شاہین حوصلہ ہار گئے،اس وقت سینئر پلیئرز کو انھیں سمجھانا چاہیے تھا،خیر اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہمیں ٹورنامنٹ سے حاصل شدہ مثبت چیزوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔

ٹیم یکجا ہو کر کھیلتی دکھائی دی، کھلاڑی ایک دوسرے کی کامیابی پر خوش ہوئے،یہ اسپرٹ برقرار رہی تو فائدہ ہوگا، اہم ٹورنامنٹس میں کسی کو آرام کرانے کی گنجائش نہیں ہوتی،اگر مومینٹم بن جائے تو اسے برقرار رکھا جاتا ہے، پاکستان نے بھی ایسا ہی کیا اور ایک ہی پلئینگ الیون تمام میچز میں  میدان میں اتاری، ہمیں بطور کپتان ایک نیا بابر اعظم میدان میں دکھائی دیا جس نے کھلاڑیوں کی تعریف کی اور ڈانٹا بھی، ان میں قوت فیصلہ بھی دکھائی دی اور آگے بڑھ کر قیادت کرتے رہے۔

شاداب خان کی بولنگ پر بڑی تنقید ہوتی تھی لیکن ورلڈکپ میں ان کی کارکردگی اچھی رہی، ایک وقت توایسا لگتا تھا کہ چار وکٹیں لینے پر وہی سیمی فائنل کے بہترین کھلاڑی قرار پائیں گے لیکن آسٹریلیا نے بازی پلٹ دی،آصف علی نے بعض مختصر مگرکارآمد اننگز سے اپنی اہمیت منوائی، شعیب ملک ’’اولڈ از گولڈ‘‘ کی مثال بنے دکھائی دیے،ہمیں پاکستان ٹیم کو سراہنا بھی چاہیے جس نے مسلسل 5 میچز جیت کر فائنل فور میں جگہ بنائی مگر منزل کے اتنے قریب پہنچ کر ہمت ہار جائیں تو زیادہ دکھ ہوتا ہے، ہم کو تکبر سے بھی دور رہنا چاہیے تھا، ’’اس ٹیم کو کوئی نہیں ہرا سکتا‘‘ جیسے بیانات غیر ضروری تھے، اس سے کھلاڑی بھی خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے ہوں گے، قدم زمین پر رکھیں گے تو اتنی ہی کامیابیاں ملیں گی۔

ٹورنامنٹ میں پی سی بی کی تمام تر توجہ سوشل میڈیا پر رہی، کھلاڑیوں کی روز نت نئی ویڈیوز جاری کی گئیں، دنیا کے کسی اور بورڈ نے ایسا نہیں کیا، شاید ہم سب سے زیادہ چالاک ہیں یا  آپ خود سمجھ جائیں میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں، ہم وہاں دل جیتنے نہیں ٹورنامنٹ جیتنے گئے تھے، ایک، دو ویڈیوز چلا دیں کافی تھا، ’’اوور ایکسپوژر‘‘ ٹیم کے لیے نقصان دہ رہا، کھلاڑیوں کا کام بیٹ اور بال سے کھیلنا ہے لفظوں سے نہیں، اسکرپٹ پر کام کرنے سے ان کو کیا فائدہ، سیمی فائنل سے قبل شعیب ملک اوررضوان علیل ہو گئے یہ بات میڈیا کو نہیں بتائی گئی، پھر جب خبر لیک ہوئی تو کہا کہ معمولی فلو اور ہلکا بخار تھا، میچ کے دن انٹرویو میں ہیڈن نے انکشاف کیا کہ رضوان تو اسپتال میں داخل رہے ہیں، اتنی اہم معلومات میڈیا سے چھپائی گئیں۔

جو صحافی وہاں گئے وہ بیچارے بھی پریشان رہے، زوم تک پر ان کی اپنے کھلاڑیوں تک رسائی نہیں تھی، امید ہے آئندہ میڈیا منیجر کواپنے اصل کام پر توجہ دینے کی ہدایت ملے گی، اب پاکستان ٹیم بنگلہ دیش پہنچ چکی ہے، ہار کے خوف سے کسی بڑے کھلاڑی کو آرام نہیں دیا گیا، میزبان ٹیم ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کے سبب دباؤ کا شکار ہے، ان کا بورڈ  اب اپنے پلیئرز کے لیے سازگار پچز بنوائے گا، سیریز آسان ثابت نہیں ہوگی، مگر ’’ٹیم کو گھبرانا نہیں ہے‘‘ امید ہے  ہمیں پھر سے ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ گنگنانا نہیں پڑے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔