رانا شمیم بیان حلفی؛ ثبوت لے آئیں ثاقب نثار کے خلاف کارروائی ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  منگل 16 نومبر 2021
لوگوں کا عدالت پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں بننا شروع ہو گئی ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ  فوٹو: فائل

لوگوں کا عدالت پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں بننا شروع ہو گئی ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا حلف نامہ  جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ 

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف اور مریم نواز کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں سے متعلق خبر پر سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی ، خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے خلاف کیس پر سماعت کی۔ سماعت سے قبل ‏رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی۔

سماعت کے دوران  جسٹس اطہر من اللہ نے خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیئے کہ آزادی اظہار رائے بھی بہت ضروری ہے لیکن انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے، آپ کی رپورٹ نے لوگوں کے حقوق کو متاثر کیا ہے، اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نا ہوتا تو یہ سماعت شروع نہ کرتا، میں نے سماعت اس لیے شروع کی کیونکہ ہم بھی احتساب کے قابل ہیں، اس عدالت کے ہر جج نے کوشش کی کہ عوام تک انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پرنا ہو تو یہ بہت الارمنگ ہے، آپ ایک بڑے میڈیا ہاؤس اور اخبار کے مالک ہیں، اگر کوئی حلف نامہ کہیں بھی دے دے تو کیا آپ اس کو پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے؟۔

دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی ، 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں ، میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت بیرون ملک چھٹی تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے کیس مقرر ہوا، اپیلوں کی پیروی خواجہ حارث کررہے تھے، کیا آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ الیکشن سے پہلے کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی انہوں نے کوئی درخواست کی تھی؟، خواجہ حارث جانتے تھے کہ اسی روز سزا معطل ہو ہی نہیں سکتی ، عدالت نے سب سے جلدی کی تاریخ 31 جولائی کی دی کیونکہ ان دنوں چھٹیاں تھیں، جس جج کا نام آپ نے لکھا نہیں اور عدلیہ پر سوال اٹھا ہے، لوگوں کا عدالت پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں بننا شروع ہو گئیں، کیا اس عدالت کا جج کہیں سے ہدایات لیتا ہے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت کے جج کے گھر یا چیمبر میں کوئی رسائی لے رہا ہے تو میں اس کا جواب دہ ہوں، اگر رانا شمیم یا انصار عباسی ثبوت لے آئیں تو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا۔

معاملہ کیا ہے؟

گزشتہ روز اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حلف نامے کا ذکر ہے، حلف نامے میں رانا شمیم نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 14جولائی 2018 کو ایک 27 رکنی وفد کے ہمراہ گلگلت بلتستان آئے تھے، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لان میں بیٹھے تھے اور ٹیلی فون پر ہدایات دے رہے تھے۔

رانا شمیم اپنے حلف نامے میں مزید کہتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار پریشان تھے اور اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پر بات کر رہے تھے، انھیں ہدایات دے رہے تھے کہ فلاں جج کے پاس جاؤ۔ اس جج سے میری بات کرواؤ اور اگر بات نہ ہو سکے تو اس جج کو میرا پیغام دے دیں کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے۔ ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو میاں ثاقب نثار پُرسکون ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔

ثاقب نثار کا موقف

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ نہ تو انھوں نے اس وقت کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے ملاقات کی اور نہ ہی انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کے سلسلے میں کسی کو ہدایات دی تھیں، جب وہ خود پاکستان کے چیف جسٹس تھے تو انھیں سابق وزیر اعظم کو جیل میں رکھنے سے متعلق کسی جج سے ملاقات کرنے یا ہدایات دینے کی کیا ضرورت تھی۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لیے وہ اس بیان پر چارہ جوئی کرکے رانا شمیم کے اس بیان کو اہمیت نہیں دینا چاہتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، میر شکیل الرحمان، عامر غوری اور انصار عباسی کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔