سہیل اصغر اور انور محمود خالد

امجد اسلام امجد  جمعرات 25 نومبر 2021
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

طالب علمی کے دنوں سے ایک فارسی تاثر ’’شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ‘‘ کی شکل میں سنتے آرہے تھے مگر گزشتہ پندرہ دن میں اس کے جو رُوپ اور تفصیلات سامنے آئی ہیں انھوں نے اس کو ایک بالکل نئے معنی دے دیے ہیں، دو برس قبل جب کورونا کا آغاز ہوا تو شروع شروع میں کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بلا کس قدر خطرناک ہوسکتی ہے۔

گزشتہ پندرہ روز سے میں اس انتہائی تکلیف دہ تجربے سے گزر رہا ہوں، برادرم ڈاکٹر تقی عابدی ٹورانٹو سے دن رات لمحہ لمحہ کی خبر رکھتے رہے ہیں اور اب بقول اُن کے یہ وائرس جو میں شاید کراچی سے ساتھ لایا تھا اور جس کی تبدیلیاں بہت پیچیدہ ہیں اپنا وقت پورا کرچکا ہے۔

بخار اور سیچوریشن دونوں عمل مسلسل قابو میں رہے ہیں مگر خشک کھانسی، کمزوری، سانس کا پھولنا اور ہمہ وقت کی غنودگی نے ہر چیز کو تہہ و بالا کر رکھا تھا لکھنا تو بہت دُور کی بات ہے دو منٹ توجہ سے کچھ پڑھا بھی نہیں جا رہا تھا، بیٹے علی ذی شان امجد اور داماد عاقب انور کو چند ماہ قبل ڈاکٹر فرید لغاری نے اپنی نگرانی میں رکھ کر بہت موثر علاج کیا تھا اور یہی محبت بھرا رویہ اُن کا میرے ساتھ بھی رہا، اس دوران میں شوگر کے معالج ڈاکٹر امتیاز حسن سے مشورے کے بغیر انسولین کی ڈوز دو دفعہ زیادہ لے لی جس کی وجہ سے ایک رات تو بہت ہی زیادہ تکلیف اور خطرے میں گزری۔ پرسوں شام تک یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے شدید پریشانی کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔

بھائی تقی عابدی نے چھاتی کے ایکسرے کے ساتھ ایک ای سی جی کروانے کا مشورہ بھی دے دیا جس نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا کہ رپورٹ زیادہ تسلی بخش نہیں تھی، حمید لطیف اسپتال کے ڈاکٹر راشد لطیف مجھ سے سگے بھائیوں جیسا تعلق خاطر رکھتے ہیں اُن کے کہنے پر ماہرِ امراضِ دل ڈاکٹر جنید ظفر نے رات گیارہ بجے میرا معائنہ کیا اور بھائی تقی عابدی سے فون پر تفصیلی گفتگو کے بعد مشورہ دیا کہ میں رات اسپتال ہی میں رُکوں تاکہ صبح صبح میرے کچھ مزید ٹیسٹ کیے جاسکیں، ساری رات کے جگراتے اور ٹیسٹوں کی پریشانی کے بعد بالآخر کل دوپہر کو گھر واپس آنا ہُوا اور بتایا گیا کہ اب زیادہ تر مسئلہ کمزوری کا ہے جو ختم ہونے میں کافی وقت لے سکتی ہے۔ احباب کے بے شمار فونوں کی وجہ سے کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ اس دوران میں کیا کچھ ہوگیا ہے۔

اب جو کوشش کرکے تیسرے کالم کی غیر حاضری سے بچنے کی کوشش کی تھی تو ایک ساتھ اوپر تلے دو بہت تکلیف دہ خبروں نے گھیر لیا یہ تو میرے علم میں تھا کہ عزیزی سہیل اصغر کافی عرصے سے بیمار چلا آرہا ہے اور اس کی بیماری خاصی پیچیدہ بھی ہے مگر یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ وہ مرض الموت میں مبتلا ہے۔

عزیزی سہیل احمد کی زبانی اس کی رحلت کی خبر ملی تو ایک دم ذہن 35 برس پیچھے چلا گیا اُن دنوں میں جیلوں سے متعلق اپنا سیریل ’’وقت‘‘ لکھ رہا تھا کہ کسی دوست نے سہیل اصغر سے ملاقات کرائی اُس کی آواز، شخصیت ، فنی دسترس اور سنجیدہ طبیعت نے فوراً ہی متاثر کیا اور اگرچہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے اُس نے ’’فشار‘‘، ’’رات‘‘ اور ’’انکار‘‘ میں ایک سے بڑھ کر ایک رول ادا کیے مگر زیادہ کامیابی اُسے اصغر ندیم سید کے ڈراموں چاند گرہن، پیاس، آسمان اور خواہش وغیرہ سے ملی کہ یہ سب رول جنوبی پنجاب کے مخصوص کلچرسے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے ہر ایک اپنے مزاج کی وجہ سے ایک رول ماڈل کی شکل اختیار کر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار ٹی وی کے اُن چہروں میں ہونے لگا جن کی کسی ڈرامے میں موجودگی اس کی کامیابی کی سند بن جاتی ہے۔

ڈرامے کی کراچی منتقلی کے بعد وہ بھی اپنی فیملی سمیت وہیںآباد ہوگیا اور ڈرامے کے بہت زیادہ اچھے دن نہ ہونے کے باوجود اس کی طرف سے ہمیشہ اچھی خبر ہی ملتی رہی، بوجوہ کوئی پندرہ سال قبل میں نے ٹی وی کے لیے لکھنا بند کر دیا جس کے بارے میں ہر ملاقات پر وہ یہی کہا کرتا تھا کہ اگر پرانے اور سینئر لوگ اس طرح سے ناراض یا مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ جائیں گے تو پھر یہ زوال کا منظر نامہ نہ صرف ایک مستقل شکل اختیار کرجائے گا بلکہ شاید کچھ عرصہ بعد اسے دوبارہ سے زندہ کرنا بھی ممکن نہ رہے۔

اتفاق سے ایک طویل عرصے کے بعد میں نے اُس کی بات سے اتفاق کرنا شروع کیا تھا لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ایک خاص رول جو میں اس کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہا تھا اب شاید کبھی نہ لکھا جائے۔ سہیل اصغر نے بتایا کہ آخری دنوں میں وہیں عابد علی مرحوم کے ساتھ تھا اور اب شاید قبرستان میں وہ اپنے دیرینہ رفیق کی محبت میں آیندہ نسلوں کے لیے ایک ادارے کی شکل اختیار کر جائے۔

دوسری خبر آج صبح مستنصر حسین تارڑ کی ایک پوسٹ سے ملی کہ برادرم ڈاکٹر انور محمود خالد بھی اپنی آخری منزل کو روانہ ہوگئے ہیں، کتاب کے ساتھ ایسا محبت کرنے والا اور اُسے خرید کر پڑھنے والا شخص بہت ہی کوشش سے مل سکے گا کہ ادب اس مرحوم کا اوڑھنا بچھونا ہی نہیں پہلی اور آخری محبت بھی تھا، وہ صحیح معنوں میں ایک پڑھاکُو شخص تھے ان کی نظر گہری بھی تھی اور وسیع بھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میری کسی تحریر میں کوئی حوالہ،  ریفرنس ، شعر یا رائے میں ایسی حد آگئی جس میں تصحیح اور درستی کے امکانات تھے وہ فوراً بہت محبت اور تفصیل سے بذریعہ خط مجھے اپنی رائے یا میری غلطی سے آگاہ کرتے۔

ریاض مجید بھائی نے بتایا کہ اُن جیسی بھرپور اور کامیاب شخصی لائبریری شاید ہی پاکستان میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کے پاس ہو، وہ خوش خوراک اور خوش مزاج تو تھے ہی لیکن دوستی اور تعلق داری کو نبھانے میں بھی بہت کم اُن کی برابری کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

میں ان دونوں مرحوم دوستوں کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر ابھی تک میری طبیعت پوری طرح سے بحال نہیں ہوئی ایک اور کمی جو رہ گئی ہے وہ 20 نومبر کو احمد ندیم قاسمی صاحب کے یومِ ولادت کے حوالے سے ان کو بھرپور طریقے سے یاد کرنا ہے کہ ہماری پوری نسل پر اگر کسی ایک سینئر ادیب کے سب سے سے زیادہ احسانات ہیں تو وہ قاسمی صاحب ہی ہیں۔ ربِ کریم اُن کی رُوح کو اپنی امان میں رکھے اور اُن کے درجات میں مزید بلندی عطا فرمائے ۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔