- پروازوں کی بروقت روانگی میں فلائی جناح ایک بار پھر بازی لے گئی
- عالمی بینک کی معاشی استحکام کے لیے پاکستان کو مکمل حمایت کی یقین دہانی
- سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 6 دہشت گرد ہلاک
- وزیراعظم کا ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان
- لاہور میں سفاک ماموں نے بھانجے کو ذبح کردیا
- 9 مئی کے ذمہ داران کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرانا چاہیے، صدر
- وزیراعلیٰ پنجاب کی وکلا کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خلاف مہم پر توہین عدالت کی کارروائی کیلئے بینچ تشکیل
- پہلے مارشل لا لگانے والے معافی مانگیں پھر نو مئی والے بھی مانگ لیں گے، محمود اچکزئی
- برطانیہ میں خاتون ٹیچر 15 سالہ طالبعلم کیساتھ جنسی تعلق پر گرفتار
- کراچی میں گرمی کی لہر، مئی کے اوسط درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
- زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم
- سائفر کیس: انٹرنیٹ پرموجود لیکڈ آڈیوز کو درست نہیں مانتا، جسٹس گل حسن اورنگزیب
- عمران خان نے چئیرمین پی اے سی کے لیے وقاص اکرم کے نام کی منظوری دیدی
- سوال پسند نہ آنے پر شیرافضل مروت کے ساتھیوں کا صحافی پر تشدد
- مالی سال 25-2024کا بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش کیے جانے کا امکان
- کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے نئی ویکسین کی آزمائش
- بیوی کی بے لوث خدمت، شوہر 10 سال بعد کومے سے زندگی کی طرف لوٹ آیا
- بجلی کی قیمت میں دو روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافہ
- کراچی : تین ڈاکو پولیس اہلکار سے بائیک چھین کر فرار، چوتھا زخمی حالت میں گرفتار
خوف اور درد میں خلیوں کیلیے بھی آکسیجن کم ہونے لگتی ہے، تحقیق
کیلفورنیا: خوف، بے چینی اور درد کی کیفیت میں دماغ پر جو اثرات ہوتے ہیں ان میں سے ایک منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ خلیاتی سطح پرعملِ تنفس متاثر ہوجاتا ہے۔
سالک انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں کے مطابق شدید تکلیف اور خوف و رنج میں دماغی نیٹ ورک اور عملِ تنفس میں بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔ اسے سمجھ کر نہ صرف منشیات سے اموات پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ اس پورے عمل کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔
17 دسمبر کو شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دماغی جڑ (برین اسٹیم) سے عصبی خلیات کے مجموعے دماغی حصے ایمگڈالا تک جاتے ہیں جہاں ہمارا دماغ خوف اور دیگر احساسات یعنی درد اور تکلیف کی شدت کو پروسیس کرتا ہے۔ لیکن دماغ میں ہی ان کا رابطہ پری بوئزنجر کمپلیکس سے رہتا ہے جوسانس لینے کا عمل ایک ہموار سلسلے سے قائم رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے بے چینی اور تکلیف میں ہم لمبی لمبی سانسیں لینے لگتے ہیں۔
سالک انسٹی ٹیوٹ کے سنگ ہین کے مطابق پہلی مرتبہ درد اور عملِ تنفس کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔ انہیں سمجھ کر درد کش دوا اور خود سانس کو بہتر بنانے والی نئی ادویہ کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ دوسری جانب درد کش دواؤں کی نئی اقسام بھی سامنے آسکتی ہیں۔
پاکستان کو چھوڑ کر مغرب وامریکا میں درد کش ادویہ یعنی اوپیوڈز سے اموات کی شرح بہت ذیادہ ہے۔ خیا ہے کہ وہ درد کا علاج کرنے کی بجائے اسے دباتی ہیں جس سے خلیاتی سطح پر پورا نظامِ تنفس ناکام ہونے لگتا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کی اموات ہوجاتی ہے۔ یعنی اینزائٹی، خوف، اندیشہ اور تکلیف سب ہی پھیپھڑوں سے لے کر خلیوں تک نظامِ تنفس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
ماہرین نے تصدیق کے لیے چوہوں پر اس کی آزماش کی اور وہاں بھی یہی بات سامنے آئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔