پراسرار اور عظیم ’کائناتی بلبلہ‘ جس میں ہمارا نظامِ شمسی بند ہے

ویب ڈیسک  جمعـء 14 جنوری 2022
ہمارے سورج کے گرد تقریباً 1,000 نوری سال جتنا علاقہ کسی خالی بلبلہ جیسا ہے جہاں بہت کم ستارے ہیں۔ (فوٹو: نیچر)

ہمارے سورج کے گرد تقریباً 1,000 نوری سال جتنا علاقہ کسی خالی بلبلہ جیسا ہے جہاں بہت کم ستارے ہیں۔ (فوٹو: نیچر)

میری لینڈ: ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم کا کہنا ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے گرد عظیم الشان اور پراسرار ’کائناتی بلبلہ‘ اُن واقعات کے تسلسل کا نتیجہ ہے جو آج سے ایک کروڑ 40 لاکھ سال پہلے شروع ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ ماہرین تقریباً چالیس سال سے جانتے ہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی کے گرد تقریباً 1,000 نوری سال وسیع علاقے کے اندر بہت کم ستارے ہیں جبکہ اس کے باہر نئے ستارے خاصی بڑی تعداد میں بن رہے ہیں۔ فلکیاتی اصطلاح میں یہ علاقہ ’لوکل ببل‘ جبکہ عوامی زبان میں ’کائناتی بلبلہ‘ کہلاتا ہے۔

نئی تحقیق میں امریکا، جرمنی، آسٹریا اور کینیڈا کے ماہرین نے حالیہ برسوں میں کیے گئے تفصیلی اور حساس فلکیاتی مشاہدات اور پیچیدہ کمپیوٹر سمیولیشنز کی مدد سے دریافت کیا کہ یہ ’کائناتی بلبلہ‘ 14 ملین (ایک کروڑ 40 لاکھ) سال پہلے ایک سپرنووا دھماکے سے بننا شروع ہوا تھا۔

سورج سے کئی گنا زیادہ کمیت والا کوئی ستارہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایک شدید دھماکے سے پھٹتا ہے جس کے نتیجے میں بہت زیادہ توانائی، صدماتی لہریں اور اس ستارے کا مادہ چاروں طرف پھیل جاتے ہیں۔ یہی وہ دھماکہ ہے جسے ’سپرنووا‘ کہا جاتا ہے۔

14 ملین سال پہلے سپرنووا کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والے اس کائناتی بلبلے کے بیرونی کناروں پر نئے ستارے بھی بڑی تعداد میں بننے لگے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

البتہ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بلبلہ مسلسل پھیلتا چلا گیا اور آج تقریباً 1,000 نوری سال جتنا وسیع ہوچکا ہے۔

تازہ تحقیق میں ماہرین نے نہ صرف اس کائناتی بلبلے کی پوری تاریخ معلوم کی ہے بلکہ اس کی ساخت کا تعین بھی کیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کائنات میں ایسے وسیع و عریض بلبلوں کی بڑی تعداد موجود ہوسکتی ہے لیکن اس کےلیے ہمیں مزید تحقیق کرنا ہوگی۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔