- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی اور عمران خان کی رہائی کیلیے پشاور میں ریلی کا اعلان
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
- اڈیالہ جیل میں عمران خان سمیت قیدیوں سے ملاقات پر دو ہفتے کی پابندی ختم
- توانائی کے بحران سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرنا ترجیح میں شامل ہے، امریکا
- ہائیکورٹ کے ججزکا خط، چیف جسٹس سے وزیراعظم کی ملاقات
- وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسیحی ملازمین کیلیے گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بونس کا اعلان
- سونے کی عالمی ومقامی قیمتوں میں اضافہ
- بلوچستان : بی ایل اے کے دہشت گردوں کا غیر ملکی اسلحہ استعمال کرنے کا انکشاف
- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی نے اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
ح سے ’حقہ‘ تو پھر س سے ’سگریٹ‘ کیوں نہیں؟
اردو کی ابتدائی درسی کتب میں بچوں کےلیے حروفِ تہجی اور ساتھ ساتھ اردو سیکھنے کےلیے ’الف‘ سے ’ے‘ تک تصویری شکل میں اردو کا قاعدہ پڑھایا جاتا ہے، تاکہ بچوں کو حروف کے ساتھ چیزوں کی بھی آشنائی ہوسکے۔
فدوی نے بہت سی درسی کتب کا بہ نظرِ عمیق مطالعہ کیا تو کچھ چیزوں پر محسوس کیا کہ اِن پر کام کیا جائے تاکہ مزید بہتری آسکے۔ اُن میں سے جس پر سب سے زیادہ کام کی ضرورت محسوس ہوئی وہ حروفِ تہجی میں ’ح‘ ہے۔ حروف تہجی میں ’ح‘ فارسی زبان کا ’آٹھواں‘ جب کہ عربی زبان کا ’چھٹا‘ حرف ہے۔ اکثر اردو کی کتب میں ’ح‘ کے ساتھ ’حقہ‘ کی تصویر موجود ہوتی ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ’ح‘ سے حقہ پڑھایا اور سمجھایا جائے۔
اکثر مائیں یہ سوال پوچھتی ہیں کہ آخر یہ ’حقہ ‘ ہی کیوں شامل کیا ہے؟ تو ہمارا جواب آئیں بائیں شائیں کرنے کے سِوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ہم بھی اگر اپنے ماضی میں جائیں تو ہمیں بھی ح سے ’حقہ‘ ہی پڑھا یا گیا ہے۔ اُس وقت بھی ہم صرف پڑھ کر اور دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور ہمارا ذہن شش و پنج میں مبتلا رہتا کہ آخر یہ ’حقہ‘ ہے کیا بلا؟ والدہ بھی تھوڑا بہت ہی سمجھا پاتیں، کیوں کہ تشریح کرنا وہ بھی ایک تین یا چار سال کے بچے کے سامنے، جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی چھوٹی عمر میں بچوں کو ’حقہ‘ پڑھایا اور سمجھا جایا جائے؟ کیا ایک تین یا چار سال کے بچے کو یہ سمجھانا مناسب رہے گا کہ ’’بیٹا! حقہ سے مراد تمباکونوشی کےلیے استعمال ہونے والا ایک ایسا آلہ ہے، جو بڑے بزرگ استعمال کرتے ہیں‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیا ہم یہ توقع کریں کہ ایک تین یا چار سال کا بچہ اسے سمجھے؟ مزید برآں اگر وہ ہم سے یہ پوچھے کہ بابا! ماما! ابو! امی! یہ حقہ آپ کیوں نہیں پیتے/ پیتیں؟ پہلے تو ہم اپنی بغلیں جھانکیں گے پھر اُس کے بعد ہمارا جواب یقیناً یہ ہوگا کہ نہیں، بیٹا! حقہ پینا بُری بات ہے۔
تو جب بُری بات ہے تو ابتدائی عمر سے ہی اُس ناسمجھ کو جس نے ابھی شعور کی منزل کی ابتدا بھی نہیں کی، آشنائی کیوں دی جارہی ہے؟ یعنی ہم ہی اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے غلط راہ پر لے کر جارہے ہیں۔
کچھ لوگ یقیناً یہ کہیں گے کہ اسے پڑھانا ضروری ہے کیوں کہ گاؤں، دیہات وغیرہ کی روایت میں ’حقہ‘ شامل ہے۔ تو کیا ہم اپنے بچوں کو ’س‘ سے ’سگریٹ‘ بھی پڑھائیں؟ اور پھر جب منع کیا جائے تو ہمارا جواب بھی پھر یہ ہو کہ ہمارے شہر کی روایت میں ’سگریٹ نوشی‘ شامل ہے۔ اس حوالے سے اُن لوگوں (ماہرینِ تعلیم) کو بھی سوچنا چاہیے جو اِن کتب کی تالیف میں شراکت دار ہوتے ہیں۔
بچوں کو ابتدا سے ہی وہ چیزیں سکھائی جائیں جن میں اخلاقی اقدار ہوں، وہ اخلاقی روایات ہوں جو معاشرے میں صحت مندانہ طور پر جانی جاتی ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے دین نے جو اخلاقی قدریں سکھائی ہیں اُن سے بھی بچوں کو ابتدائی کتب کے ذریعے آشنائی کرائی جائے، تاکہ بچہ جو چیزیں ماں کی گود سے سیکھنا شروع کرتا ہے جب وہ اپنی کتابوں میں دیکھے گا تو اسے ایک کشش محسوس ہوگی اور اس میں پڑھائی کا شوق مزید بڑھے گا۔
ح سے ’حقہ‘ کے بجائے اگر ’حاجی‘، ’حکومت‘، ’حاکم‘، ’حافظ‘ یا دوسرے عناصر شامل کرلیے جائیں تو کوئی قباحت نہیں ہوگی بلکہ اس سے بچہ کو آشنائی کے ساتھ ساتھ اس کو اُن چیزوں کا شعور ہوگا جو اس کے گِردونواح میں موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔