پلوٹو کے ’برف اگلتے آتش فشاں‘ مزید پراسرار ہوگئے

ویب ڈیسک  بدھ 6 اپريل 2022
برف اگلتے ہوئے یہ سرد پہاڑ ’’صرف‘‘ دس کروڑ سال قبل یا اس سے بھی کم پرانے زمانے میں زندہ تھے۔ (فوٹو: نیچر کمیونی کیشنز)

برف اگلتے ہوئے یہ سرد پہاڑ ’’صرف‘‘ دس کروڑ سال قبل یا اس سے بھی کم پرانے زمانے میں زندہ تھے۔ (فوٹو: نیچر کمیونی کیشنز)

پیساڈینا، کیلیفورنیا: کچھ سال قبل ہمارے نظامِ شمسی کے بونے سیارے ’’پلوٹو‘‘ کے قریب سے گزرنے والے ’’نیو ہورائزن‘‘ خلائی کھوجی نے وہاں کچھ ایسے پہاڑ دریافت کیے تھے جو زمینی آتش فشانوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں مگر شاید کسی زمانے میں ان سے شدید سرد پانی اور برف خارج ہوئے تھے۔

ان پہاڑوں کو سائنسدانوں نے ’’برف اگلتے آتش فشانوں‘‘ (آئس وولکینوز) کا نام دیا تھا۔

اب ان ہی برفیلے آتش فشانوں پر نئی تحقیق سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ برف اگلتے ہوئے یہ سرد پہاڑ ’’صرف‘‘ دس کروڑ سال قبل یا اس سے بھی کم پرانے زمانے میں پوری جولانی کے ساتھ زندہ تھے۔

اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہمیں پلوٹو کے ماضی اور حال کے بارے میں اپنی معلومات تبدیل کرنا ہوں گی کیونکہ سورج سے 3 ارب 70 کروڑ کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے پلوٹو کو انتہائی سرد سمجھا جاتا تھا۔

ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ پلوٹو میں اندرونی طور پر بھی بہت زیادہ گرمی نہیں اور نہ صرف باہر سے، بلکہ اندر سے بھی یہ بالکل ٹھنڈا ہوچکا ہے۔

برف اگلتے آتش فشانوں جیسے پہاڑوں کے بارے میں خیال تھا کہ ان کی یہ کیفیت کم از کم ایک ارب سال سے ایسی ہے لیکن نئی تحقیق سے یوں لگتا ہے کہ شاید یہ صورتِ حال صرف دس کروڑ یا اس سے بھی کم پرانی ہے۔

ایک اندازہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ شاید پلوٹو آج بھی اندرونی طور پر خاصا گرم ہے جس کے باعث وہاں کے پہاڑوں سے برف اور ٹھنڈا پانی خارج ہورہے ہوں گے۔

یہ تب باتیں فی الحال مفروضات کی شکل میں ہیں جنہوں نے پلوٹو کے ’برف اُگلتے آتش فشانوں‘ کو مزید پراسرار بنا دیا ہے۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیلات ’’نیچر کمیونی کیشنز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔