- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
- جواہرات کے شعبے کو ترقی دیکر زرمبادلہ کما سکتے ہیں، صدر
سورج مکھی کے زردانوں سے بنا کاغذ، جس پر بار بار لکھا جاسکتا ہے
سنگاپور سٹی: اگرچہ کاغذ کو بازیافت (ری سائیکل) کرنا ایک بہتر طریقہ ہے لیکن سنگاپور کے سائنسدانوں نے سورج مکھی پھول کے زردانوں سے ایک نیا کاغذ بنایا ہے جسے بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
پولن گرین سے بنا یہ کاغذ ایک کیمیکل سے صاف ہوجاتا ہےجس کے بعد اسے دوبارہ چھاپا اور لکھا جاسکتا ہے۔ سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی نے دو سال قبل اس کاغذ پر کام شروع کیا۔ اس کی تیاری عین صابن سازی کی ہی طرح ہے جس میں پوٹاشیئم ہائیڈروآکسائیڈ استعمال کی گئی ہے جو سورج مکھی زردانے کے بیرونی سخت خول کو گھلادیتی ہے۔
اب تبدیل شدہ زردانوں کا نرم اندرونی حصہ باقی رہتا ہے سے ڈی آئیونائزڈ پانی سے دھوکر مزید صاف اور خالص بنایا جاتا ہے۔ اب زردانوں سے ایک نیم مائع جل بنایا گیا۔ اس کے بعد تبدیل شدہ زردانے والے جیل کو ایک سانچے میں رکھ کر خشک کرکے دبایا گیا تو صرف 0.03 ملی میٹر پتلا کاغذ ڈھالا گیا اور اس پر اسیٹک ایسڈ گزار کر نمی سے پاک کیا گیا۔
اس طرح ہموار، پتلا اور نیم شفاف کاغذ ہاتھ آیا جو لیزرپرنٹرسے گزر کر پرنٹنگ کے قابل ہے اور روایتی ٹونر اس پر تصاویر اور الفاظ چھاپے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد کاغذ گیلا بھی ہوجائے تب بھی اس کی پرنٹنگ غائب نہیں ہوتی۔
اب کاغذ کو دوبارہ لکھنے کے قابل بنانے کے لیے اسے الکلائن محلول میں دو منٹ رکھ کر ہلایا جائے تو سارا لکھا چھپا غائب ہوجاتا ہے۔ اسے خشک کرکے اب دوسری، تیسری اور کئی بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں کاغذ بار بار استعمال ہوسکتا ہے لیکن اس کے معیار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ درخت ضائع کئے بغیر سورج مکھی کے فالتو زردانوں سے انقلابی کاغذ کا پورا کارخانہ لگانا ممکن ہے۔ جبکہ کنول اور کامیلیا کے زردانوں سے بھی یہ کاغذ بنایا جاسکتا ہے۔
اس اہم ایجاد کی تفصیل جرنل آف اینڈوانسڈ مٹیریئل میں شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔