ساری عمر وادیِ علم کی سیّاحی کرتے گزری ، ڈاکٹر وقار احمد رضوی

اقبال خورشید  جمعرات 27 فروری 2014
معروف ماہر تعلیم، محقق اور اسکالر، ڈاکٹر وقار احمد رضوی کی کہانی

معروف ماہر تعلیم، محقق اور اسکالر، ڈاکٹر وقار احمد رضوی کی کہانی

تحقیق اور تدریس؛ جیون سارا اِسی کام میں بیتا۔ علم کی چاشنی نے باقی معاملات سے بے نیاز رکھا۔ اب کتابیں تھیں، وہ تھے، اور جستجو تھی۔ جستجو، جو بپھرے سمندر میں روشنی کے مینار کی مثل تھی، جو کٹھن حالات میں سفر جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی!

یہ ڈاکٹر وقار احمد رضوی کا تذکرہ ہے۔ تدریس شناخت کا بنیادی حوالہ ہے۔ اِس میدان میں پانچ عشروں کا سفر طے کر چکے ہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور ہندی پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ تحقیق کے لیے جدید اردو غزل، اردو تنقید، عربی اور ہندی ادب کو چُنا۔ وقیع کتابیں لکھیں۔ ’’ڈی لٹ‘‘ کی ڈگری سے نوازے گئے۔ اُن کی تازہ کتاب ’’تاریخ ادب عربی‘‘ آج کل موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ 123ملکی و بین الاقوامی سیمینارز میں تحقیقی مقالات پیش کرچکے ہیں۔ مطبوعہ مضامین چھے سوکے قریب ہیں۔

وقار احمد رضوی 5 دسمبر 1936 کو امروہہ کے ایک دینی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا، مولانا احمد حسن محدث کا شمار صف اول کے علما میں ہوا کرتا تھا۔ بہ قول اُن کے، وہ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث تھے۔ والد، سید محمد رضوی محکمۂ تعلیم، حیدرآباد دکن سے منسلک رہے۔ آٹھ بھائیوں میں نمبر اُن کا پانچواں ہے۔ معروف شاعر اور براڈکاسٹر، زبیر رضوی اُن کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کی طبیعت پر سنجیدگی کا غلبہ رہا۔ کھیلوں اور شرارتوں سے دور رہے۔ قابل طالب علم تھے۔ عربی سے رشتہ گھر ہی میں قائم ہوگیا تھا، پھر ندوۃ العلما میں بھی زیر تعلیم رہے۔ سماجی اور ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے۔ انجمن ترقی اردو نے یوپی میں اردو کو ثانوی حیثیث دلانے کے لیے دست خط مہم شروع کی، تو اُس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ امروہہ میں انجن کی شاخ کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔

بٹوارے کے بعد خاندان ہندوستان ہی میں رہا۔ اِس کے دو اسباب تھے۔ پہلا سبب گھرانے کا دینی مزاج تھا، جس نے سیاسی معاملات سے لاتعلق رکھا۔ پھر امروہہ فسادات سے بھی محفوظ رہا تھا۔ سو وہیں ٹھہرنا مناسب جانا۔ میٹرک اور انٹر کا مرحلہ یوپی سے طے کیا۔ اب عملی زندگی میں قدم رکھا۔ دہلی کی معروف درس گاہ اینگلو عربک کالج میں پڑھنے لگے۔ ماہانہ 65 روپے ملا کرتے۔ پنجاب یونیورسٹی کے دہلی کیمپس سے 57ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ یونیورسٹی آف دہلی سے 61ء میں اردو میں ماسٹرز کیا۔ پھر علی گڑھ یونیورسٹی چلے گئے۔ عربی میں ایم اے کا مرحلہ طے کیا۔ تحریک پاکستان کے زمانے میں وہ درس گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی، مگر جب اُنھوں نے قدم رکھا، ماحول پر ادبی رنگ غالب تھا، تحریک میں کردار ادا کرنے والے بیش تر طلبا پاکستان چلے گئے تھے۔

ایم اے کرتے سمے توجہ تحقیق پر مرکوز رہی۔ عربی ادب کا وسیع ذخیرہ پڑھ ڈالا۔ اُس زمانے میں اردو زبان میں تاریخِ عربی ادب سے متعلق کوئی کتاب دست یاب نہیں تھی۔ خواہش ہوئی کہ اِس ضمن میں ایک کتاب لکھیں۔ مواد اکٹھا کرنے لگے۔ کئی عشروں بعد یہ تحقیق ’’تاریخِ ادب عربی‘‘ کے زیر عنوان منصۂ شہود پر آئی، جس پر آگے تفیصلی بات ہوگی۔

وقار احمد رضوی 70ء میں پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے کا ایک سبب تو یہ تھا کہ تمام سُسرالی ہجرت کر چکے تھے، پھر علوم عربی پر اُنھیں دست رس تھی، اور اُس کی وہاں کھپت نہیں رہی تھی۔ اردو کے خلاف بھی محاذ بن چکا تھا۔ ان عوامل نے ہجرت کے مشکل فیصلے کو آسان کر دیا۔ شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کا وہ حصہ بن گئے۔ وقت کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کرتے گئے۔ 94ء میں پروفیسر کے منصب پر فائز ہوئے۔ دو برس بعد ریٹائر ہوگئے۔ عام مشاہدہ ہے کہ اساتذہ ریٹائرمینٹ کے بعد گھر بیٹھ جاتے ہیں، مگر ڈاکٹر وقار احمد رضوی کا معاملہ یک سر مختلف رہا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اُن کی صلاحیتوں سے استفادے کا خواہش مند تھا۔ Eminent Scholar کی حیثیت پھر جامعہ کراچی سے جڑ گئے۔ بعد میں جامعہ کی پیش کش پر 2013 تک وہاں پڑھتے رہے۔ یعنی جس درس گاہ سے ریٹائر ہوئے، وہ اگلے سترہ برس اُن کے علم اور تجربے سے استفادہ کرتی رہی۔ کہتے ہیں،’’یہ بڑا اعزاز ہے۔ دراصل میری ساری عمر وادی علم کی سیّاحی کرتے گزری۔ اوائل ہی سے ایک جستجو تھی، جو علم کے میدان کی جانب کھینچتی تھی۔ بس میں اسی طرف چلتا رہا۔ اِدھر اُدھر نہیں دیکھا۔‘‘

جب پی ایچ ڈی کا ارادہ باندھا، تو ’’تاریخ جدید اردو غزل‘‘ کا موضوع چنا۔ سپروائزر ڈاکٹر ابوللیث صدیقی تھے۔ 84ء میں ڈگری ملی۔ بعد میں مقالہ کتابی شکل میں بھی شایع ہوا۔

دوران تحقیق حالی سے عہد حاضر تک کے غزل گو شعرا کا جائزہ لیا۔ کہتے ہیں،’’حالی نے اپنے مقدمے میں غزل کے روایتی انداز کو چیلینج کر دیا تھا۔ گل و بلبل کے افسانے ختم کرتے ہوئے مقصدی غزل کی بات کی۔ اِس مقدمے کا ردعمل لکھنؤ سے آیا۔ دراصل دبستان لکھنؤ میں خارجیت تھی، جب کہ دبستان دہلی کی خصوصیت داخلیت ہے۔ حالی نے داخلیت پر زوردیا۔ اِس سے مسابقت پیدا ہوئی۔ انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ اب صفی، عزیز، ثاقب، آرزو اور یگانہ لکھنؤ کو تھے، مگر اُنھوں نے لکھنؤ کی تصنع پرستی کو چھوڑ دیا۔ مصحفی تھے تو امروہہ کے، مگر تعلق دبستان دہلی سے تھا۔ بعد میں وہ لکھنؤ چلے گئے۔ اِس سے بھی بہت فرق پڑا۔ آتش اور انیس اُن کے شاگردوں میں سے تھے۔ دیگر خانوادوں پر بھی اُن کا اثر آیا۔‘‘ موجودہ عہد کی غزل کو وہ مقصدی غزل قرار دیتے ہیں۔ فیض کو اعلیٰ معیار کا شاعر تصور کرتے ہیں۔ فراز کے ہاں، اُن کے بہ قول، رومانویت ضرور ہے، مگر زوال پذیری نہیں۔

اپنے پی ایچ ڈی تھیسس میں غزل اور نظم کی مسابقت کا بھی تذکرہ کیا۔ بہ قول ان کے،’’ایک زمانے میں غزل کے خلاف محاذ بن گیا تھا۔ غزل نظم کے نرغے میں آگئی، مگر اُس دور میں بھی اچھے غزل گو شعرا پیدا ہوئے۔ میرے نزدیک غزل کا مستقبل تابناک ہے۔ نظم ابھی اُس مقام پر نہیں پہنچی۔ نثری نظم تو دم توڑ چکی ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کے مطابق غزل کا کینوس وسیع ہے، وہ تمام موضوعاتِ زندگی کا احاطہ کرسکتی ہے۔ ’’نظم تو آپ ایک موضوع پر لکھتے ہیں، مگر غزل میں ایک موضوع نہیں ہوتا۔ کئی شعر ہوتے ہیں، اور ہر شعر ایک موضوع کا احاطہ کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی غزل عصری تقاضے پورے کرنے کی قوت رکھتی ہے۔‘‘

شاہ جو رسالو کا اردو ترجمہ اُن کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل یہ نثری ترجمہ 93ء میں اکادمی ادبیات سے شایع ہوا۔ اِس منصوبے میں ڈاکٹر ایاز قادری کی معاونت حاصل رہی۔ شاہ لطیف کو وہ محبت اور اخوت کا شاعر قرار دیتے ہیں۔ اُن کے ہاں ڈاکٹر صاحب کو مولانا روم کا اندازہ نظر آیا۔ ’’مولانا روم حکایات بیان کرتے ہیں۔ یہی طریقہ شاہ لطیف کا ہے۔ ہر حکایت کے بعد وہ ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اُن کے کلام میں قرآن و حدیث کی تعلیمات ہیں۔ چوں کہ میرا قرآن وحدیث کا مطالعہ تھا، اِس لیے زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔‘‘

اردو کی کئی قدآور شخصیات سے قلمی رابطہ رہا۔ ’’مشاہیر کے خطوط‘‘ اِسی رابطے کے عکاس ہیں۔ اس کتاب میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی، علامہ نیاز فتح پوری، آل احمد سرور، عرشی رام پوری، احتشام حسین اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسی شخصیات کے خطوط شامل ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری سے رابطے کا قصّہ یوں ہے کہ 52ء میں ’’نگار‘‘ کا علمائے اسلام نمبر نکلا۔ اُس میں انھیں تاریخی، تحقیقی اور فکری غلطیاں نظر آئیں۔ خط میں اُن کی نشان دہی کی۔ نیاز صاحب نے فراح دلی کا مظاہرہ کیا۔ خط ’’نگار‘‘ میں شایع کر دیا۔ جواب بھی دیا۔ خط و کتابت کا سلسلہ آنے والے برسوں میں بھی جاری رہا۔ عبدالماجد دریاآبادی کی تفسیر القران سے متعلق استفسار اُن سے رابطے کی وجہ بنا۔

تین ہزار سال کا احاطہ کرتی اُن کی کتاب ’’تاریخ ادب عربی: دور جاہلیت سے دور حاضر تک‘‘ زیر بحث آئی، تو عربی شاعری اور ادب پر بات نکلی۔ اُن کے مطابق عربی ادب کا آغاز عہد جاہلیت سے ہوتا ہے۔ امرؤالقیس کو وہ اُس عہد کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔ بعد کے شعرا میں لبیدبن ربیعہ کا نام لیتے ہیں۔ عربی میں فکشن نگاری کا آغاز، اُن کے مطابق، عباسی دور کے بعد ہوا، مگر یہ شاعری کے قائم کردہ معیارات کو نہیں چھو سکا۔ عربی ادب اُن کے مطابق بین الاقوامی معیار اور تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔

دیگر کتب کا تذکرہ آیا، تو بتانے لگے، ریڈیو پاکستان کے لیے اُنھوں نے انگریزی میں مسلم سائنس دانوں سے متعلق مضامین لکھے تھے، جنھیں 87ء میں کتابی شکل دی گئی۔ 2009 میں یہ انجمن ترقی اردو سے اردو میں شایع ہوئی۔ ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’’قرآن حکیم اور ہماری زندگی‘‘ کے لیے تیرہ برس تک تقاریر لکھیں، جنھیں ’’محاضرات القرآن‘‘ کے زیرعنوان کتابی شکل دی گئی۔

اِس بات کا اُنھیں قلق ہے کہ ہمارے ہاں طلبا و طالبات کو اخلاقی تعلیم نہیں دی جاتی۔ اِس کمی کو پورا کرنے کے لیے ’’اخلاقیات‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شایع ہوئی۔ ایک کتاب اپنے دادا سے متعلق بھی لکھ چکے ہیں۔ کتاب ’’شمع فروزاں‘‘ میں اپنی دینی فکر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں، ادبی پیرایے میں بیان کیا۔

اردو میں تحقیق کے امکانات ڈاکٹر صاحب کو روشن نظر آتے ہیں۔ یقین رکھتے ہیں کہ تحقیق کے بغیر ہمارا تخلیقی سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لائبریریوں کی کمی کا گریہ کرنے والوں سے خود کو الگ رکھتے ہیں۔ ’’لائبریریاں تو ہیں، مگر پڑھنے والے کم ہیں۔ کتابیں انسانی ذہن کو روشنی عطا کرتی ہیں، مگر اب مطالعے پر ٹی وی اور انٹرنیٹ غالب آگئے ہیں۔‘‘

اردو کا مستقبل تابناک قرار دیتے ہوئے اردو رسم الخط کے خاتمے کا نظریہ رد کر دیتے ہیں۔ ’’اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ ایک ارب انسان اِسے بولتے اور سمجھتے ہیں۔ دنیا کے 23 ممالک کی درس گاہوں میں اِس کے شعبے قائم ہیں۔ ہمیں اس کے مستقبل سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ اردو پڑھنے والوں کے پاس، اُن کے مطابق، ملازمتوں کی کوئی کمی نہیں، خصوصاً شعبۂ صحافت میں خاصے مواقع ہیں۔

استاد کو اُن کے نزدیک سیرت اور کردار کا حامل ہونا چاہیے کہ باکردار استاد ہی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ’’ایسے اساتذہ ہمارے ہاں موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے انھیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔‘‘

عبداﷲ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ انھیں بہت پسند آیا۔ حیات اﷲ انصاری کے ناول ’’لہو کے پھول‘‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اقبال کے معترف ہیں۔ جگر بھی پسند ہیں۔ عربی شعرا میں جریر، فرزدق اور متنبّی کا ذکر کرتے ہیں۔ تنقید کے میدان میں پروفیسر آل احمد سرور، احتشام حسین، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری، ممتاز حسین کو سراہتے ہیں۔ دینی شخصیات میں شاہ ولی اﷲ اور موجودہ عہد کے مذہبی اسکالرز میں مولانا ابوالحسن ندوی کا نام لیتے ہیں۔

62ء میں شادی ہوئی۔ اولاد نہیں ہے، کتابوں کو اپنی اولاد قرار دیتے ہیں۔ ہندوستان کے زمانے میں شیروانی پہلی ترجیح تھی۔ بعد میں شلوار قیمص اور سوٹ، دونوں ہی پہنے۔ قورمے اور پلاؤ سے رغبت ہے۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔’’ڈی لٹ‘‘ کی ڈگری ملنا زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ صابر اور شاکر آدمی ہیں، غموں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ قرآن پاک کا مطالعہ معمول کا حصہ ہے۔ یہ عمل بہ قول ان کے، مصائب کے اثر سے محفوظ رکھتا ہے۔ آج کل ’’قومی یک جہتی کا تہذیبی پس منظر‘‘ نامی کتاب پر کام کر رہے ہیں۔ خواہش ہے کہ پاکستان کی تمام قومیں اخوت اور بھائی چارے سے رہیں۔

’’ڈی لٹ‘‘ کی ڈگری اور ’’معروضی تنقید‘‘
کتاب ’’معروضی تنقید‘‘ کے لیے انھیں ’’ڈی لٹ‘‘ کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’اردو میں ہمیں تاثراتی، مارکسی اور جمالیاتی تنقید تو ملتی ہے، مگر معروضی تنقید نہیں ملتی۔ معروضی تنقید کا مطلب ہے؛ اصول تنقید۔ اردو میں اصول تنقید مدون ہی نہیں کیے گئے۔ میں نے یہ سوال اٹھایا کہ ناقد آخر کن اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتا ہے۔ کوئی پیمانہ تو ہونا چاہیے۔ تو میں نے چار اصول طے کیے؛ جذبہ، خیال، مواد اور ہیئت۔ شعر کو یوں دیکھا جائے کہ جذبہ صادق ہے یا کاذب ہے۔ خیال کیسا ہے۔ مواد کا کیا معیار ہے، ہیئت کیا ہے۔ ان چاروں اصولوں کا شعری اور نثری، دونوں ادب پاروں پر اطلاق ہوتا ہے۔‘‘

اُن کے مطابق یوں تو اردو میں بڑے بڑے نقاد گزرے، مگر کسی نے ارکان نقد بیان نہیں کیے۔ یہ اعزاز اُن ہی کے حصے میں آیا۔ ’’معروضی تنقید اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔ کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ڈاکٹر احسن فاروقی، پروفیسر منظور حسین شور، ڈاکٹر ممتاز حسین جیسی شخصیت نے اس پر رائے دی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈاکٹر وقار احمد رضوی نے اردو تنقید میں ایک نیا دبستان کھول دیا۔‘‘

89ء میں کتاب شایع ہوئی۔ 2004 میں ڈگری ملی۔ یہ سلسلہ ’’تاریخ نقد‘‘ نامی کتاب کی صورت مزید آگے بڑھا، جس میں اُنھوں نے تنقید کی تاریخ قلم بند کی۔ کتاب کا آغاز دبستان یونان سے ہوتا ہے۔ پھر دبستان انگلستان، دبستان عربی، اردو دیگر دبستانوں کا وہ جائزہ لیتے ہیں۔ ارسطو کی ’’بوطیقا‘‘ کو وہ تنقید کی پہلی کتاب قرار دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔