پانی میں تیرنے، ہوا میں اڑنے اور ’چمٹ جانے‘ والے ڈرون

ویب ڈیسک  جمعـء 20 مئ 2022
چینی سائنسدانوں کی جانب سے تیارکردہ ڈرون جو اڑنے اور تیرنے کے علاوہ کسی بھی بڑے جاندار یا بے جان شے سے چمٹ سکتا ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

چینی سائنسدانوں کی جانب سے تیارکردہ ڈرون جو اڑنے اور تیرنے کے علاوہ کسی بھی بڑے جاندار یا بے جان شے سے چمٹ سکتا ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

بیجنگ: چینی ماہرین نے پانی میں تیرنے اور ہوا میں پرواز کرنے والا ایسا ڈرون بنایا ہے جس پر ایک چھوٹا ربر کا سکشن کپ لگا ہے جس کی بدولت وہ بڑے جانور سمیت کسی بھی جگہ پر مضبوطی سے چمٹ سکتے ہیں۔

اس طرح آبی ڈرون وھیل پر سوار ہوکر ان کی نگرانی کرسکتے ہیں یا خاموشی سے دشمن کی آبدوزوں سے بھی جڑسکتے ہیں۔ ڈرون کا سکشن پمپ ریمورا نامی مچھلی سے بنایا گیا ہے۔ یہ مچھلی بڑے جانوروں سے چمٹ جاتی ہے اور انہیں تنگ کرنے والے کیڑے مکوڑوں یا طفیلیوں کو کھاتی رہتی ہے اور اس کے بدلے مفت میں سواری کےمزے لیتی ہے۔ کارخانہ قدرت میں اس عمل کو ’ہم زیستگی‘ یا سمبوائیوسِس‘ کہا جاتا ہے۔

بیجنگ میں واقع بی ہینگ یونیورسٹی کے لائی وین کا روبوٹ نہ صرف پانی میں تیر سکتا بلکہ بڑے سمندری جاندار سےچمٹ جاتا ہے بلکہ یہ ہوا میں پرواز کے دوران بھی اڑنے والی شے سے چمٹ سکتا ہے۔ اس کےلیے ریمورا مچھلی کاسکشن نظام تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا گیا ہے۔ ربر پر مشتمل اس پیڈ کے تمام حصے جب ملتے ہیں تو وہ نمی سے بھرپور سکشن کپ کی طرح کام کرتے ہیں اور کسی بھی شے سے جڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لیکن پانی میں ڈبکی لگانے کے لیے ماہرین نے کنگ فشر پرندے سے مدد لی ہے جو خاص انداز سے اپنے بازو سکیڑ کر گہرائی تک جاتا ہے اور شکار پکڑ کر لاتا ہے۔ عین اسی طرح ڈرون کی پنکھڑیاں بھی سکڑ کر بند ہوجاتی ہیں اور یوں وہ پانی میں تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔

اس کے بعد پانی سے فضا میں آنے کے لیے ڈرون کی پنکھڑیاں کھل جاتی ہیں اور وہ اس  تیزی سے گھومتی ہیں کہ وہ پانی کو چھوڑ کر کامیابی سے فضا میں بلند ہوجاتا ہے اور پرواز کرتا رہتا ہے۔

تجربہ گاہ میں 40 سینٹی میٹر لمبے روبوٹ نے پانی میں جاکر اندر تیرتے تیزرفتار روبوٹ سے چپک جانے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد وہ الگ ہوگیا لیکن روبوٹ سے جڑنے کے بعد اس نے صرف 5 فیصد توانائی ہی حاصل کی۔ یہ روبوٹ بار بار ہوا میں اڑسکتا ہے اور بار بار پانی کے اندر جانے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔

مزید بہتری کے بعد اسے ڈھائی میٹر گہرائی میں آزمایا گیا ہے۔ اس کےبعد دھیرے دھیرے بیرونی کنٹرولر سے اس کا رابطہ کمزور دیکھا گیا ۔ اب ماہرین اس کے بہتر مواصلاتی نظام پر کام کررہے ہیں اور توقع ہے کہ یہ مزید گہرائی تک کام کرسکے گا۔

کثیرالمقاصد ڈرون کو وائلڈ لائف سروے، سائنسی تحقیق، سمندری جانوروں کی بقا، جاسوسی اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے اندر جی پی ایس نظام بھی نصب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔