فیس بک امریکا میں ہونے والے قتل عام کی ویڈیوز ہٹانے میں ناکام

ویب ڈیسک  جمعـء 20 مئ 2022

بفیلو، نیویارک: سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کو امریکی ریاست نیویارک کے شہر بُفیلو میں گزشتہ ہفتے ہونے والے قتل عام کی ویڈیوز کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شوٹنگ کی ان کلپس تک نہ صرف صارفین کو رسائی حاصل ہے بلکہ حملے کی دوبارہ سے پوسٹ کی جانے والی یہ کلپس بعض اوقات اشتہارات کے ساتھ بھی ظاہر ہو رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بات واضح نہیں ہے کہ کلپس کے ساتھ یہ اشتہارات کیوں آرہے ہیں۔

لیکن ادارے کا کہنا تھا کہ ان کی اور ٹیک ٹرانسپیرنسی پروجیکٹ کی جانب سے کیے جانے والے ٹیسٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ شوٹنگ کی فوٹیج کی تلاش کے لیے متعلقہ اصطلاحات کے ساتھ ڈراؤنی فلم، کپڑوں کی کمپنیوں اور ویڈیو اسٹریمنگ سروسز کے اشتہارات دِکھ رہے ہیں۔

ادارے کے مطابق فیس بک کے لیے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی بار کمپنی شوٹنگ کی ویڈیوز سے متعلق تلاش کی جانے والی اصطلاحات کی تجویز دے چکا ہے۔ فیس بک کی جانب سے کچھ سرچز کو ’مقبول‘ کے طور پر پیش کیا۔

گزشتہ قتل عام اور پُر تشدد وقوعات کےساتھ، بُفیلو میں پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو حملہ آور کی جانب سے ٹوئچ پر اسٹریم کی گئی۔ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے اس معاملے کو سنبھلنا کتنا مشکل ہے۔

فیس بک کا کہنا تھا کہ کمپنی نے اس المناک واقعے کو دہشتگردی قرار دیا تھا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایسے سسٹم پر کام کر رہا ہے جو اس واقعے کی ویڈیوز کی نقول کی خود بخود نشان دہی کر لے گا۔

لیکن واقعے کی ویڈیوز ابھی بھی پلیٹ فارم پر موجود ہیں اور ان ویڈیوز کے اطراف اشتہارات کی موجودگی مزید یہ سوالات اٹھا رہی ہیں کہ آیا کمپنی صارفین کے تحفظ سے زیادہ ترجیح مالی منافع کو دے رہی ہے؟

فیس بک کے ترجمان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ کمپنی اپنے صارفین کو اس اندوہ ناک واقعے کی ویڈیوز دیکھنے سے بچانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔

واضح گزشتہ ہفتے امریکی ریاست نیو یارک کے شہر بُفیلو کی ایک سپر مارکیٹ میں ایک سفید فام حملہ آور نے فائرنگ کر کے 10 افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا تھا۔

حملہ آور کی جانب سے کی گئی فائرنگ کی زد میں 13 لوگ آئے جن میں 11 سیاہ فام تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔