گہرے زخموں کی ’حیاتیاتی ویلڈنگ‘ کرنے والے ٹیکنالوجی وضع کرلی گئی

ویب ڈیسک  جمعـء 27 مئ 2022
سائنسدانوں نے گہرے زخم بھرنے کے لیے ٹشو ویلڈنگ ٹیکنالوجی وضع کی ہے۔ فوٹو: فائل

سائنسدانوں نے گہرے زخم بھرنے کے لیے ٹشو ویلڈنگ ٹیکنالوجی وضع کی ہے۔ فوٹو: فائل

سوئزرلینڈ: جس طرح ویلڈنگ سے دھاتی ٹکڑے جوڑے جاتے ہیں عین اسی طرح گہرے زخم جوڑنے کی ایک نئی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جسے سرجری میں انقلابی قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرِ طبیعیات آسکر سائپولاٹو نے یہ ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض اقسام کی جراحی میں جسمانی مائع اور خون رِستے رہتے ہیں، جس سےمریض کو ہسپتال میں رکھنا ضروری ہوجاتا ہے جبکہ تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ بسااوقات پچیدگی بڑھنے سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

پھر جسم کے اندرونی مائعات کا مسلسل بہاؤ بدن کے دیگر عضو میں انفیکشن کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر آسکر نے اسے ’لیزر ٹشو ویلڈنگ‘ کا نام دیا ہے۔ اس میں حیاتیاتی طور پر موزوں (بایوکمپیٹیبل) مادے یعنی ایلبیومن اور خون کا ایک پروٹین شامل کیا ہے۔ اس میں ٹائٹانیئم الوئے (بھرت) کے بہت ہی باریک ذرات بھی ملائے گئے ہیں۔ ان سب چیزوں کو ایک مرہم میں ڈھالا گیا اور جب اس پر لیزر ڈال کر گرم کیا جاتا ہےجس سے کھلے زخم پر ایک مضبوط حفاظتی چادر سی بن جاتی ہے جو ایک مضبوط اسٹیکر کی طرح مکمل طور پر واٹر پروف بھی ہوتی ہے۔

اگرچہ سرجری میں اسٹیپل کا عمل بھی استعمال ہوتا ہے، زخم کے کنارے جلا کر انہیں بند کیا جاتا ہے اور فائبرن پروٹین کی پٹی بھی لگائی جاتی ہیں لیکن ان تدابیر میں کچھ نہ کچھ خامیاں اپنی جگہ موجود ہیں اور لیزرٹشو ویلڈنگ اس کا متبادل بن سکتی ہیں۔ فائبرن عمل میں خون کے لوتھڑے بن سکتے ہیں اور اسٹیپل کرنے کا عمل خون یا پیپ کے رساؤ کی وجہ بن سکتا ہے۔

آسکر کے مطابق زخم کی ویلڈنگ یا سولڈرنگ میں ناسور بھرنے والا مٹیریئل اوپر رکھا جاتا ہے اور اس سے ایک طرح کی مہر لگ جاتی ہے۔ زخم بندھ ہونے سے مندمل ہونے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور ٹشو (بافت) کی افزائش بھی تیز ہوجاتی ہے۔

ماہرین نے اسے مستقبل کی ٹیکنالوجی قرار دیا ہے اور برطانیہ میں این ایچ سے وابستہ آنتوں کے سرجن شرلے چین کے مطابق یہ اندرونی رساؤ کو روکنے والی ایک ٹیکنالوجی ہے تاہم اس کا تصدیق انسانی آزمائش کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔

اپنے تمام خواص کے باوجود یہ ایک ایک پرامید طریقہ علاج ہے جس کی انسانی آزمائش اب بھی برسوں دور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔