شہباز شریف، سعودی عرب اور چین

مزمل سہروردی  جمعـء 28 اکتوبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب کا دورہ کر کے پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں اور اب انہوں نے یکم نومبر کو چین کا دورہ کرنا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی اگلے ماہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بارہ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر بات ہو رہی ہے، مذاکرات فائنل راؤنڈ میں ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب بھی اسی لیے تھا۔ شہباز شریف کو دورہ سعودی عرب کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے غیر معمولی پروٹوکول دیا گیا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان خودگاڑی چلا کر کے انہیں اپنی ذاتی فارم ہاؤس لے کر گئے۔ اس کے علاوہ بھی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات دوبارہ گرم جوشی نظر آرہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے سعودی وعلی عہد سے ان پاکستانیوں کو معاف کرنے کی بھی درخواست کی جنہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد سے ان کے گزشتہ دورے کے د وران مسجد نبوی میں بد تمیزی کی تھی۔ سعودی قوانین کے تحت ان آٹھ پاکستانیوں کو سزائیں دی جا چکی ہیں اور وہ اپنی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

سعودی ولی عہد نے وزیر اعظم پاکستان کی درخواست پر ان کی سزائیں معاف کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اب یہ پاکستانی سعودی جیلوں سے رہا ہو جائیں گے۔ یہ وہی پاکستانی ہیں جنہوں نے موجودہ حکومتی وفد کے ساتھ مسجد نبوی میں بد تمیزی کی تھی اور اب شہباز شریف نے ہی انہیں رہا کرا دیا ہے، شہباز شریف نے درست کیا ہے، وہ پورے پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے بھی وزیر اعظم ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے لوگوں کے بھی وزیر اعظم ہیں۔ اس لیے ان کے لیے معافی کی درخواست سے شہباز شریف کاقد بڑھا ہے۔

جن لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو شہباز شریف کے اس نیک جذبے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن پھر بھی شہباز شریف کے اس اقدام سے پاکستان کی عالمی ساکھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ باقی جہاں تک تحریک انصاف کے حامیوں کا سوال ہے، ان کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دینا چاہیے ۔

شہباز شریف نے سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری کو ختم کرنے کے لیے ان چھ ماہ میں بہت کام کیا ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تنازعہ میں پاکستان نے سعودی عرب کے حق میں باقاعدہ نہ صرف بیان جاری کیا ہے بلکہ واضح کیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے۔

شہباز شریف کی خارجہ پالیسی میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے۔ اسی لیے ہمیں سعودی عرب کے رویے میں بھی گرم جوشی نظرآرہی ہے اور سرمایہ کاری کے جو منصوبے بند ہو گئے تھے، وہ دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ ایک امید کی جا رہی ہے کہ سعودی ولی عہد کے اگلے ماہ دورہ پاکستان میں گوادر میں آئل ریفائنری کا افتتاح ممکن نظر آرہا ہے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے بڑے منصوبوں کے افتتاح بھی ممکن نظر آرہے ہیں۔

یہ وہی سرمایہ کاری ہے جو عمران خان حکومت کی غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی اورسعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تمام تعاون ختم ہو گیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے چھ ماہ میں ہی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بحال کر دیے ہیں۔ معاشی تعاون پر دوبارہ بات چیت ہو رہی ہے۔ بند دروازے کھولے جا رہے ہیں۔یہ پاکستان کے لیے خوش آیند ہے۔

عمران خان حکومت نے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات بھی خراب کر دئے تھے۔ چین بھی ناراض نظرا ٓرہا تھا۔ شہباز شریف نے سی پیک کو واپس شروع کیا ہے۔ عمران خان حکومت میں چین نے اپنے ڈپازٹ بھی واپس لے لیے تھے، لیکن شہباز شریف کی کاوشوں سے وہ ڈپازٹ واپس آیا ہے۔ اس وقت بھی شہباز شریف چین کی جانب سے پاکستان کو دیے قرضوں کو ری شیڈول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان قرضوں کے ری شیڈول کرانے سے پاکستان پر قسطوں کا بوجھ کم ہوگا۔ اگر چین قرضوں کی قسطیں موخر کر دیتا ہے تو پھر پیرس کلب سے باقی قرضوں کے موخر کرنے پر بھی بات چیت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس لیے شہباز شریف کا دورہ چین بھی بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس دورے کے بھی پاکستان کی معیشت پر دیر پا اثرات ہوںگے۔

چین نے سی پیک میں سرمایہ کاری بھی روکی ہوئی ہے بلکہ چین سی پیک کی سست رفتاری پر بھی بہت ناراض ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد گوادر کے متعدد دورے کیے ہیں۔گوادر میں بجلی کا مسئلہ کیا ہے، اس ضمن میں نہ صرف ایران سے معاہدہ کیا گیا ہے بلکہ گوادر کو نیشنل گرڈ کے ساتھ بھی منسلک کیا جا رہا ہے۔ چین کی یہ بات درست تھی کہ جب تک گوادر میں بجلی پانی کی سہولیات نہیں ہوںگی، سی پیک اور گوادر کی ترقی کیسے ممکن ہے۔ تا ہم گزشتہ دور حکومت میں اس پر کوئی کام نہیں ہوا تھا۔

شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سی پیک کی بحالی پر بہت کام کیا ہے۔ اسی لیے ان کا دورہ چین بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ چینی صدر ویسے بھی شہباز شریف کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور شہبازا سپیڈ کا لقب انہیں چینی قیادت کی جانب سے ہی دیا گیا تھا۔ ان کے کام کرنے کی رفتار کو چین میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے چینی قیادت کو اعتماد ہے، شہباز شریف جو کام اپنے ذمہ لیں گے وہ پورا کریں گے۔ ان کی یہ ساکھ سی پیک کو دوبارہ زندہ کرنے میں اہم ثابت ہو رہی ہے۔

شہباز شریف اگر سعودی عرب اور چین کو گوادر میں اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کے لیے یہ ایک بہت بڑی خدمت ہو گی۔ ایک طرف شہباز شریف کے مخالفین انہیں امریکا نواز کہتے ہیں لیکن دوسری طر ف شہباز شریف کی قربت سعودی عرب اور چین کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ دونوں ممالک کے آجکل امریکا سے کوئی اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ لیکن وہ پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون بڑھانے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔

سعودی عرب اور چین میں بھی حالیہ دنوں میں تعلقات بہت قریب ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب نے چین کے ساتھ معاشی تعاون بڑھایا ہے۔ اس لیے اب اس میں پاکستان کی شمولیت اچھی ثابت ہوگی۔

ایک طرف ملک میں لانگ مارچ کی گونج ہے۔ عمران خان چار نومبر کو اسلام آباد لانگ مارچ لیکر پہنچنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف یکم نومبر کو شہباز شریف چین جا رہے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ 2014میں بھی چینی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر بھی عمران خان لانگ مارچ اور دھرنا کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے سی پیک تاخیر کا شکار ہو گیا اور آج بھی جب چین کے ساتھ بات چیت ہو رہی ہوگی تو عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کر رہے ہوںگے۔ جب بھی چین کے ساتھ بات ہو رہی ہوتی ہے، عمران خان سڑکوں پر کیوں ہوتے ہیں۔ یہ اتفاق ہے یا کھیل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔