سوائن فلو پھر لَوٹ آیا

خرم منصور قاضی  اتوار 27 اپريل 2014
سوائن فلو وائرس دنیا میں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب اسے روکنا ناممکن ہو چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ۔ فوٹو: فائل

سوائن فلو وائرس دنیا میں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب اسے روکنا ناممکن ہو چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ۔ فوٹو: فائل

سوائن فلو ایک بار پھر پاکستان میں عود آیا ہے۔ گزشتہ دنوںملتان میںتین نئے کیس سامنے آنے کے بعد سوائن فلو کے مریضوں کی تعداد سولہ ہو گئی ہے جبکہ اب تک دو خواتین اور ایک مرد اس جان لیوا مرض کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر یہ سوائن فلو ہے کیا اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ سوائن فلو یعنی سور سے ہونے والے زکام کی وبا کا آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے دوسو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ تا دم تحریرعالمی ادارہ صحت کی جانب سے سوائن فلو سے دنیا بھر میںتقریباً بارہ ہزارافراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے جبکہ پاکستان میں آج تک تقریباً 12افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 208ممالک کے افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور لیبارٹری سےH1N1وائرس کی تصدیق بھی کی جا چکی ہے۔ یہ وائرس اب ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے۔

سوائن فلو وائرس سے امریکا میں 6670 ،یورپ میں2045، مغربی بحرالکاہل کے ممالک میں1039، جنوب مغربی ایشیا میں990 ،مشرق وسطی میں663اور افریقہ میں109افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے وارننگ جاری کی ہے کہ سوائن فلو وائرس دنیا میں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب اسے روکنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق’’ اس مرحلے پر مرض پر قابو پانا ممکن نہیں رہا، دنیا بھر میں کوئی جگہ اس وائرس سے محفوظ نہیں۔ مزید یہ کہ ادارے نے ہنگامی صورتحال میں مزید اقدامات کا اضافہ کردیا ہے۔‘‘

سوائن فلو ہے کیا؟

سوائن فلو کی موجودہ وباء خنزیروں میں موجود ایک وائرس influenza A virus sub type  H1N1 کی وجہ سے دنیا کی تباہی کا دوبارہ پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ سب ٹائپ فلو،جانورں اور انسانی فلو وائرس کے مختلف اجزا کا مرکب ہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا لیکن سوائن وائرس کا سب سے پہلے انکشاف 1918ء میںہواجسے اس وقت سپینش فلو کا نام دیا گیا ۔ اس فلو سے امریکہ میں پچاس ہزار سے زائد جبکہ دنیا بھر میں بیس ملین ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ 1957ء تک ہسپانوی آبادی میں موجود رہا ۔

اس کے علاوہ 1930ء میں اس کا انکشاف سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا سوروں میں ہوا۔ سوائن فلو زکام سے مشابہہ متعددی مرض ہے مگر اس کا طریقہ کار مخفی ہے۔ ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اورخصوصاً انسانی تنفس سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق میکسیکو میں ہلاکتوں کا سبب بننے والا وائرس A/H1N1 وائرس ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور انسانوں، سوروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔

علامات:

طبی ماہرین کے مطابق سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک 104درجے کا بخار، شدیدزکام، کھانسی ،سردرد ،جوڑوں کا درداور بھوک کا ختم ہو جانا شامل ہیں۔اگر بروقت علاج نہ ہوسکے اور مدافعتی نظام ناکارہ ہوجائے تو مریض نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ جاتا ہے۔ چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح کی ہی علامات سامنے آتی ہیںجس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ وائرس بیمار سوروں کے قریب رہنے والے انسانوں میں آسانی کے ساتھ منتقل ہو جاتا ہے اور پھر یہ انسانوں میں تیزی سے پھیل کر وبائی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

اس وائرس کے انسانوں کیلئے انتہائی خطرناک ہونے کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برڈ فلو کے ایچ 5ایف آئی وائرس سے 2003 ء سے اب تک دنیا بھرمیں 250انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اس کے برعکس سوائن فلو وائرس صرف اپریل2009 ء سے تادم تحریر ساڑھے گیارہ ہزار سے زائدافراد کو نگل چکا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ انفلوائنزا وائرس کی ایک نئی اورکمپا ؤنڈ قسم ہے جس پر دنیا بھر کی حکومتیں اورطبی ماہرین ریسرچ کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کا خنزیروں سے دور کابھی واسطہ نہیں وہ بھی پہلے سے متاثرہ کسی فرد سے یا وائرس سے متاثرہ شے سے سوائن فلو کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس بیماری کے ایک شخص سے دوسرے میں انتقال کی رفتار ، اور دوسرے عوامل جو اس بیماری کی نوعیت متعین کرتے ہیں، واضح نہیں ہیں۔

علاج:

ایلوپیتھک طریقہ علاج کے ماہرین اور جدید تحقیقات کے مطابق عام فلو کا باعث دو سو سے زائد اقسام کے وائرس بنتے ہیں’ ان میں رائینووائرس ‘کوکس ساکی وائرس اورکرونا وائرس خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ یہ وائرس یا کوئی اور وائرس (جس سے زکام شروع ہو)کسی بھی دوائی سے مرتے نہیں یعنی عام زکام کیلئے آج تک کوئی بھی(ایلوپیتھک) دوائی ایجاد نہیں ہو سکی۔ اس لئے ان وائرسوںکے خاتمے کیلئے انٹی بایوٹیک ادویات کا استعمال بے معنی ہے۔ ماہرین کے مطابق فلو کی اکثر اقسام لاعلاج ہیںاوربیشتر کی ویکسین بھی موجود نہیں اور تحقیقی مراحل میں ہیں۔

فلووائرسزمیں جینیاتی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ اچانک تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جنہیں جین مخالف تبدیلی یا Shift Antigenic کہتے ہیں۔ اس طرح کی تبدیلیوں کے نتیجے میںپوری کی پوری آبادیاں فلو میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور عالمگیر وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ جب ان میں ٹائپ اے فلو وائرسز ملوث ہوں تو یہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہیں۔ ان امراض کا اپنا دورانیہ ہوتا ہے اور مکمل علاج دستیاب ہونے تک جس میں بعض دفعہ سالوں لگ سکتے ہیں،صرف اور صرف علامتی علاج ہی کیا جا سکتا ہے۔ سنگین پیچیدگیوں کے زبردست خطرے میںزیاد سے زیادہ چند اینٹی وائرل ادویات استعمال کروائی جا تی ہیں۔ چونکہ سوائن فلو ایک وائرل مرض ہے اور اس میں وہی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن سے جسم میں قوت مدافعت کو بڑھایا جاسکے۔

٭ ہرقسم کے فلو کے مریض کو شراب،تمباکونوشی،محفوظ کیا ہوا گوشت، ڈبہ بند غذائیں، چاول ،آلو،اچار وغیرہ اور تمام ٹھوس غذائوں سے حتی الامکان پرہیز لازم ہے۔ پھلوں کے جوسز، سبزیوںکے سوپ اور دیگر سیال غذائیں وغیرہ زیادہ مفید ہیں۔

٭ ورزش اور لمبی واک سے ہمارا مدافعتی نظام خود کو منظم کرکے نئی قوت حاصل کرتا ہے اور کسی بھی مرض میں زیادہ موثر مزاحمت کرتا ہے۔

احتیاطی تدابیر:

احتیاط علاج سے بہتر ہے لہٰذا درج ذیل احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لا کر اس مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

٭ کسی بھی قسم کی انفیکشن خصوصاً وائرل انفیکشن کے تدارک اور داخلی مزاحمت و مدافعت بڑھانے کیلئے کسی بھی قسم کی گوبھی، لہسن، پیاز، ترش پھل، لیموں،مالٹا،سنگترہ وغیرہ، ٹماٹر، ادرک ،کالی مرچ،زنک والی غذائیںمثلاًگندم ،مچھلی اور گوشت وغیرہ کو اپنی روز مرہ خوراک میں شامل کریں۔

٭ اپنے ہاتھوں کو باقاعدہ کسی صابن سے دھوئیں۔ لیکویڈ سوپ کا استعمال وائرس کو پھیلنے سے بچانے کا اچھا طریقہ ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں ہیں جہاں اس وباء کے پھیلنے کے امکانات ہیں، یا ایسے لوگ جو حال ہی میں بیرون ملک کا سفر کر کے لوٹے ہیں تو پھر ان کیلئے احتیاطی تدابیرپر عمل کرنا مزید ضروری ہے۔جہاں وباء پھیلی ہو وہاں پرڈسپوزایبل ماسک کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔

٭ چھینکتے یا کھانستے وقت کسی رومال یا ٹشو پیپر کو استعمال کریں۔استعمال کے فورا بعد اسے ضائع کر دیںاور ہاتھوں کو فورا ً لیکویڈصابن سے دھو لیں۔

٭ اگر آپ گھر سے باہر ہیں اور صابن سے ہاتھ نہیں دھو سکتے تو اس دوران خصوصا ً اور ویسے بھی اپنے منہ، آنکھوں اور ناک کو ہاتھ یا انگلیاں لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ ان جگہوں سے وائرس کے جسم میں داخلے کا امکان زیادہ ہے۔

٭ زیادہ تر غیرملکی سفر میں رہنے اور اکثرپبلک ٹیلیفون استعمال کرنے والے افرادکو وائرل انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں شدید ضرورت ہو تواپنے پاس wipes ضرور رکھنا چاہئیں اور وائپز سے رسیور صاف کر کے استعمال کرنا چاہئے۔

٭ اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو اس خطرناک وائرس کو دوبارہ پاکستان پہنچنے سے روکنے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس مقصد کیلئے وائرس سے متاثرہ ممالک سے پاکستان آنے والے مسافروں کی ہوائی اڈوں پر خصوصی سکریننگ کی جانی چاہئے اور وائرس سے متاثرہ مسافروں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے یا انتہائی نگہداشت اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ فوری طور پراس سلسلے میں مخصوص ہسپتال کے آئیسولیٹڈ وارڈ میں داخل کرا دینا چاہئے۔ صرف اسی اقدام سے ہی پاکستان کو اس تباہ کن وائرس سے بچایا جا سکتا ہے۔

٭ مغربی ممالک میں سور کے گوشت کے کاروبار کوسنبھالا دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ سوائن فلوکا وائرس سور کے گوشت یا اس سے بنی مصنوعات کے کھانے سے پیدا نہیں ہوتا اور یہ وائرس 70درجے پر سور کے گوشت کو پکانے سے ہلاک ہو جاتا ہے لیکن روس اور چین سمیت بعض ممالک نے اس ہدایت کی سنی ان سنی کرتے ہوئے امریکا سے سور کے گوشت کی درآمد پر پابندی لگادی ہے۔

پاکستان اورسوائن فلو وائرس:

سوائن وائرس اب دنیا بھرکے ساتھ ساتھ ایشین ریجن اور پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے وارننگ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سوائن فلو کی وبا لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا دنیا بھر کے ممالک کو اس سے بچا ؤکیلئے حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ وطن عزیزمیںتازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ملک میں اب تک سوائن فلو کے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں جن حالیہ دنوں میں تین افراد جاں بحق ہوئے ۔پاکستان کو سوائن وائرس سے اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کسی بھی دوسرے ملک کو۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ پاکستان کی تمام حکومتوں کے دعووں کے برعکس صحت کے شعبے میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ہوئی۔نصف صدی سے زائد گزرنے کے باوجود ہمارا صحت کا شعبہ ابھی بھی ترقی پذیربلکہ انحطاط پذیر ہے۔

مبہم صحت پالیسیاں بنانے کا کیا فائدہ جب ان پر عمل درآمد کے لئے کوئی طریق کار ہی وضع نہ کیا گیا ہو۔ رپورٹس کے مطابق بیشتر ہوائی اڈوں پر سکریننگ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ملک کی کسی بندرگاہ میں ابھی تک تھرمل سکینرز کی تنصیب ممکن نہیں ہو سکی اور یہ باتیں صرف بیانات تک ہی محدود ہیں لہذا یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوائن کے وائرس کو بھی ایڈز کے وائرس کی تخریبی کاروائی کی طرح کراچی پورٹ یا پاکستان کی دیگر ڈرائی پورٹس پرکینٹینرزکے ذریعے تجارتی اشیائے خورد و نوش یا دیگر اشیاء کے ذریعے بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ حکومت وقت کواس سلسلے میں فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس معاشرے میں جہاں بخار کی دوا بھی حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے وہا ں پر اس آفت کا مقابلہ کیسے ممکن ہوگا۔

اس کیلئے دوست ممالک چین اورجاپان سے فورا ًمشاورت اور امداد حاصل کر کے سوائن فلوکی تباہی کو پاکستان میں نا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو درپیش اس خطرے کو حکومت تساہل کے سبب نظرانداز کرے گی تو خدا نخواستہ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر کراچی، سیالکوٹ ،لاہور ،فیصل آباد ،اسلام آباد جیسے شہروں میں یہ آفت پھیل گئی تو چشم تصور سے دیکھیںکہ دشمن دور بیٹھے کس طرح ہمیں موجودہ صورتحال میں مزاحمت سے محروم کر سکتا ہے۔ ان دیکھے دشمن کے خلاف شہری ہر گز مزاحم نہیں ہو سکیں گے۔ اس کا مقابلہ اسلحہ فوج یا طاقت سے نہیں فقط بروقت حفاظتی اقدامات سے ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جدید وبائی امراض سے نپٹنے کیلئے کوئی موثرسسٹم موجود نہیں اور اس سلسلے میں خالی بیانات داغے جا رہے ہیںجوانتہائی تشویش کا باعث ہے۔اس حوالے سے صحت سے متعلقہ وفاقی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پرفوری وعملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

میکسیکو ،امریکہ، کینیڈا،یورپ ، بھارت اور دنیا کے بعض دیگر ممالک میں سوائن وائرس کے انسانی صحت پر اثرات اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کے پیش نظر اب پاکستان میں اس وبا کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ سوائن فلو کے علاج کیلئے ویکسین عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے منگوائی جا ئے اور جن علاقوں میں سوائن فلو کے کیسز منظر عام پر آئے ہیں وہاں ویکسین کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے۔ ملکی آبادی کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے تما م بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر خصوصی انتْظامات کئے جا ئیں۔ تمام ہوائی اڈوں پر باہر سے آنے والے افراد کو فارم دے کر ان کی سفری معلومات حاصل کی جائیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی متاثرہ شخص متاثرہ ملک سے وائرس لے کر پاکستان میں داخل نہ ہو۔ نیز ایئر لائینز کے عملے کو پابند کیا جائے کہ وہ آنے والے مسافروں پر نظر رکھیں اور اگر کسی بھی مسافر میں مشتبہ فلو کی علامات ظاہر ہوں تو فوراً ایئر پورٹ ہیلتھ اتھارٹی کو مطلع دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔