- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ شروع نہیں ہوسکے گا
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ ایک بار پھر تعطل کا شکار
- دھمکیوں پر خاموش نہیں ہوں گے، جیل کیلیے بھی تیار ہیں، فضل الرحمان
- ورلڈ لیجنڈز کرکٹ لیگ، پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک مرتبہ پھر مدمقابل
- ٹی 20 ورلڈ کپ: سری لنکا نے اپنی ٹیم کا اعلان کردیا
- الشفا اسپتال سے ایک اور اجتماعی قبر دریافت، 49 ناقابل شناخت لاشیں برآمد
- بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، آسمانی بجلی گرنے سے 74 ہلاکتیں
- اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ؛ پاکستان اور جاپان 11 مئی کو فائنل میں مدمقابل آئیں گے
- سانحہ نو مئی کے خلاف پنجاب اور سندھ اسمبلی میں قرارداد کثرت رائے سے منظور
- کراچی میں نان کی قیمت 17 اور چپاتی کی قیمت 12 روپے مقرر
- اپنے خلاف کرپشن کیس بند کرانے پر فجی کے وزیراعظم کو ایک سال قید
- زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، 14 ارب 45 کروڑ 89 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئے
- دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کیساتھ کام کرنے کیلیے پُرعزم ہیں؛ امریکا
- وسیم جونیئر اور عامر جمال کو ٹیم میں ہونا چاہیے تھا، شاہد آفریدی
- 9 مئی کے ورغلائے لوگوں کو پہلے ہی شک کا فائدہ دے دیا، اصل مجرم کو حساب دینا ہوگا، آرمی چیف
- نو مئی: پی ٹی آئی کا ملٹری کیمروں کی ویڈیوز برآمدگی کیلیے سپریم کورٹ جانے کا اعلان
- محمد عامر کو آئرلینڈ کا ویزا جاری کردیا گیا
- توہین رسالت اور توہین قرآن کا جرم ثابت ہونے پر ملزم کو سزائے موت
- فوج کی سیاست میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے یہ آپ کا کام نہیں، عارف علوی
- عمران خان کا حکم؛ شیر افضل کو کور کمیٹی سے بھی نکال دیا گیا
صدر فیصلے پر نظر ثانی کریں اور معاملے کی تحقیقات کرائیں، برطرف سیکرٹری کا صدر کو خط
اسلام آباد: صدر مملکت کو تحریر کردہ مراسلے میں سیکرٹری وقار احمد نے ڈاکٹرعارف علوی سے انہیں عہدے سے ہٹانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) یا کسی اور ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کراسکتے ہیں۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر اپنے سیکریٹری وقار احمد کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کردیں۔
صدر کے سیکرٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر کے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ہے اور انہیں فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے کر دیا گیا۔
وقار احمد نے اپنے مراسلے میں کہا کہ ’’ان کا مقصد کچھ حقائق کو واضح کرنا ہے، میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میں بلز کے حوالے سے کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار نہیں ہوں‘‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’تاخیر اور خلاف ورزی کے الزامات کے برعکس بلز سے متعلق دستاویزات ابھی تک صدارتی ایوانوں میں موجود ہیں، میری خدمات واپس کرنے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے‘‘۔
وقار احمد نے کہا کہ صدر نے آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل کو پارلیمنٹ میں منظور یا واپس نہیں بھیجا، بل سے متعلق فائلز 21 اگست تک سیکرٹری آفس کو واپس نہیں کی گئیں۔
انہوں نے صدر مملکت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) یا کسی بھی متعلقہ ایجنسی کے ذریعے تحقیقات کرائیں تاکہ کسی حقیقت منظر عام پر آئے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر کوئی غلط کام ثابت ہو جائے تو ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے، میں سپریم کورٹ یا کسی دوسری عدالت کے سامنے گواہی دینے کے لیے تیار ہوں، میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پیش کروں گا۔
وقار احمد نے واضح کیا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 ایوان صدر کو 8 اگست کو سرکاری اوقات کے بعد موصول ہوا تھا، اسے 9 اگست کو صدر کو بھجوا دیا گیا تھا اور صدر مملکت کو دونوں بلز سے متعلق حقائق سے پوری طرح آگاہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت صدر کو 10 دن کے اندر کسی بل کی منظوری دینی ہوتی ہے اور اسی شق کے تحت وہ اتنے ہی دنوں میں بل کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو بھیج سکتے ہیں۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا، صدر نے نہ تو بل کی منظوری دی اور نہ ہی اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیجا اور بلز 21 اگست تک صدر کے دفتر میں ہی رہا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔