’’بعد از خدا بزرگ تُوئی قصّہ مختصر‘‘

آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، وہ کون سی ساعت، وہ کون سا لمحہ ہے، جو ذکرِ حبیب ﷺ سے خالی ہے؟


منظور احمد October 04, 2024
(فوٹو: فائل)

سیّدِ عرب و عجم، ہادی اعظم، حضرت محمد ﷺ کی شخصیت و سیرتِ عظمٰی ازل سے ابد تک زمان و مکاں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کائنات کی ہر شے رسالتِ مآب ﷺ کی نبوّت و رسالت کے بے کراں جلال و جمال کی گرفت میں ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ سرکارِ دو جہاں، رحمۃ لّلعالمین، سیّد المرسلین، خاتم النبیین ﷺ کی مدحت و رفعت کا شاہد ہے۔ ''اِنّا اعطیناک الکوثر'' اور ''ورفعنا لک ذِکرک'' کی دل آویز صداؤں سے زمین و آسمان گونج رہے ہیں۔

سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی، اسمِ گرامی ''محمد رسول اﷲ'' اور آپؐ کا ذکر اِتنا بلند ہُوا کہ کون و مکاں کی ساری رفعتیں اور تمام بلندیاں اس اسمِ مقدّس اور اِس عظیم ہستی کے سامنے پَست ہوکر رہ گئیں۔ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک سب آپؐ کے ذکرِ مبارک سے معمور ہیں۔ یہ رتبۂ بلند کُل کائنات میں آپؐ کے سِوا نہ کسی اور کو نصیب ہُوا اور نہ ہوگا۔

علّامہ سیّد محمود آلوسی قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ ''ورفعنا لک ذِکرک'' کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''اِس سے بڑھ کر آپؐ کی عظمت و رفعت، آپؐ کی سیرتِ عظمٰی اور نامِ نامی کی بلندی کیا ہوگی کہ کلمۂ شہادت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نامِ نامی کے ساتھ اپنے محبوبؐ کا نام ملادیا، حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپؐ پر درود بھیجا اور اہلِ ایمان کو آپؐ پر درود بھیجنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا، معزز القابات سے مخاطب فرمایا۔ گزشتہ آسمانی صحیفوں میں بھی آپؐ کا ذکرِ خیر فرمایا۔ تمام انبیائے کرامؑ اور اُن کی اُمّتوں سے عہد لیا کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے۔''

آج کرّہ ارض پر آباد کوئی خطّہ زمین ایسا نہیں، جہاں شب و روز سرورِ دو عالم، رسول کریم حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ ہر پل زمین کے کسی نہ کسی کونے اور دنیا کی آبادی کے کسی نہ کسی گوشے میں اذان کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔ چوں کہ اذان میں خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ سرورِ کائنات ﷺ کا نامِ نامی بھی بلند ہو رہا ہے، تو اسمِ محمد ﷺ کی عظمت و رفعت اس سے بھی نمایاں ہے کہ جب تک کرّہ ارض پر اذان کی آواز گونجتی رہے گی، اﷲ کے نام کے ساتھ اس کے محبوب پیغمبر، سیّدنا حضرت محمد ﷺ کا نامِ نامی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ سماعتوں میں رَس گھولتا رہے گا۔

لادینیت کے اِس دَور میں بھی آپؐ کے دینِ متین کی تبلیغ اور آپؐ کی سیرت و پیغام عام کرنے کی کوششیں پورے خلوص کے ساتھ جاری ہیں۔ آپؐ کا اسم گرامی لے کر، آپؐ کا ذکرِ خیر کر کے اور آپؐ کے محاسن سن کر کروڑوں دِلوں کو جو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے، اس کا جواب نہیں۔ اپنے تو رہے ایک طرف، بے گانوں اور متعصّب مخالفین کا بھی بارگاہِ رسالت ﷺ میں خراجِ عقیدت پیش کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ اگر آپ اس وقت کے حالات کو پیشِ نظر رکھیں، جن میں یہ آیت نازل ہوئی اور پھر اِس آیت کو پڑھیں، تو پڑھنے کا لطف دوچند ہوجائے گا۔

کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی پوری دنیا مخالف ہے، مکّے کے نام وَر سردار چراغِ مصطفوی ﷺ بجھانے کے درپے ہیں۔ اِن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کون تصوّر کرسکتا تھا کہ مکّے کے اِس در یتیم ﷺ کا ذکرِ پاک دنیا کے ہر گوشے میں بلند ہوگا، آپ ﷺ کے دین کی روشنی سے مہذّب دنیا کا بہت بڑا علاقہ منوّر ہوگا اور کروڑوں انسان آپؐ کے نام پر جان دینے کو اپنے لیے باعثِ صد افتخار و سعادت سمجھیں گے، لیکن جو وعدہ ربّ العالمین نے اپنے محبوب رسول اور برگزیدہ بندے حضرت محمد ﷺ سے کیا تھا، وہ پُورا ہوکر رہا اور قیامت تک ذکرِ محمد ﷺ کا آفتاب عالم تاب ضُوفشانیاں کرتا رہے گا۔

مولانا عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں: ''آخر خالقِ کائنات کے نام کے ساتھ جس کا نام زبانوں پر آتا ہے، اﷲ کے ذکر کے ساتھ جس بندے کا ذکر کانوں تک پہنچتا ہے، وہ کسی قیصر و کسریٰ کا نہیں، دنیا کے کسی شاعر و ادیب کا نہیں، کسی حکیم و فلسفی کا نہیں، کسی جنرل اور سردار کا نہیں، کسی گیانی اور کسی راہب کا نہیں، کسی رشی کا نہیں، یہاں تک کہ کسی دوسرے پیغمبر کا بھی نہیں، بل کہ عبداﷲ کے لختِ جگر، آمنہ کے نورِ نظر، خاکِ بطحیٰ کے اسی اُمّی و یتیم ﷺ کا۔''

کشمیر کے سبزہ زار میں، دکن کی پہاڑیوں میں، افغانستان کی بلندیوں میں، ہمالیہ کی چوٹیوں میں، گنگا کی وادیوں میں، چین میں، جاپان میں، جاوا میں، برما میں، روس میں، مِصر میں، ایران میں، عراق میں، فلسطین و عرب کی پوری سرزمین میں، تُرکیہ میں، نجد میں، یمن میں، مراکش میں، طرابلس میں، ہندوستان کے گاؤں گاؤں اور ان سب مہذّب ملکوں سمیت لندن، پیرس اور برلن کی آبادیوں میں ہر سال نہیں، ہر ماہ نہیں، ہر روز پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کائنات کے نام کے ساتھ فضا میں گونجتی ہے، وہ اسی عظیم اور مقدّس ہستی کا ہے، جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا، یہ معنیٰ ہیں، یتیم کے راج کے، یہ تفسیر ہے ''ورفعنالک ذِکرک'' کی۔ کسی ایک صوبے پر، کسی ایک جزیرے پر نہیں، دنیا پر، دنیا کے اربہا لوگوں کے دِلوں پر آج حکومت ہے، تو اسی یتیم کی، راج ہے تو اسی اُمّی کا۔

آج زمان و مکاں کا وہ کون سا گوشہ، وہ کون سی ساعت، وہ کون سا لمحہ ہے، جو ذکرِ حبیب ﷺ سے خالی ہے؟ اس عالم شش جہات کے گوشے گوشے میں، گردشِ زمین کے ساتھ ہر اذان میں ہمہ وقت آپ ﷺ کا نامِ نامی بلند ہو رہا ہے۔ بلند و بالا میناروں سے سرورِ کائناتؐ کا اسمِ گرامی خالقِ کائنات کے نامِ نامی کے ساتھ پکارا جارہا ہے۔

دشت و جبل، صحرا و دریا، بحر و بر، شہروں اور دیہاتوں، آبادیوں اور ویرانوں، سمندروں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں ہمہ وقت آپؐ کے نامِ نامی ''محمد رسول اﷲ'' کی پکار ہے۔ دنیا کا گوشہ گوشہ اور کرّۂ ارض کا چپّا چپّا، سیّدِ عرب و عجم، ہادی عالم، حضرت محمد ﷺ کے نامِ مبارک کی پکار سے گونج رہا ہے۔ ''ورفعنالک ذکرک'' بلندی ذکر کی یہ وہ تفسیر ہے، جو اوراقِ لیل و نہار پر 14 سو سال سے ثبت چلی آرہی ہے۔

چشمِ بینا اسے صدیوں سے پڑھتی چلی آرہی ہے۔ سرکارِ دو جہاں ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مقدسہ کا یہ تاریخی اور ابدی اعجاز ہے کہ اپنے اور بے گانے، مسلم اور غیر مسلم سب ہی آپؐ کے ثناء خواں اور آپؐ کی عظمت و رفعت کے معترف نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اِس وقت چھوڑ دیجیے کہ ان کا تو دین و ایمان ہی رسول اﷲ، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت و محبّت میں مضمر ہے، غیروں اور غیر مسلموں کے کیمپ میں آئیے، وہ بھی آپ ﷺ کی عظمت اور رفعت کے قائل نظر آتے ہیں۔

مشہور مغربی مصنّف، ای ڈرمنگھم سیرتِ طیبہ پر اپنی کتاب: ''دی لائف آف محمدؐ'' میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتے ہیں: ''محمد ﷺ اِس اعتبار سے دنیا کے وہ واحد پیغمبر ہیں، جن کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں، بل کہ روشن اور منوّر ہے۔''

مہارانی آرٹس کالج میسور (بھارت) کے پروفیسر راما کرشنا راؤ اپنی کتاب ''محمدؐ، دی پرافٹ آف اسلام'' میں لکھتے ہیں: '' محمد ﷺ میرے نزدیک ایک عظیم مفکّر ہیں۔ تمام اعلیٰ اور تمام انسانی سرگرمیوں میں آپؐ ہیرو کی مانند ہیں۔''

21 ویں صدی کے آغاز میں رابطہ عالمِ اسلامی، مکّۃ مکرمہ نے اپنے مشہور ہفت روزہ عربی جریدے ''العالم الاسلامی'' جون 2000ء میں ایک اہم خبر انٹرنیٹ سے متعلق شایع کی کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی "Microsoft" نے الفِ ثالث یعنی تیسرے ہزاریے (Millennium) کے موقع پر انٹرنیٹ پر دنیا کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ دنیا کی وہ عظیم ترین شخصیت کون ہے، جس نے اپنے فکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش ثبت کیے اور دنیائے انسانیت اس کی فکر و اثر سے زیادہ متاثر ہوئی؟

کمپنی نے رائے دہی اور شخصیت کے انتخاب کے لیے امیدوار کے طور پر17شخصیات کے نام ذکر کیے تھے، جن میں انبیائے کرامؑ میں حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ سیّد المرسلین، خاتم النبیّین ﷺ کا نامِ نامی بھی شامل تھا۔ سوال کے جواب میں ناظرین نے اپنے علم، مطالعے، معلومات، انسانی تاریخ اور انسانی تہذیب و تمدن کے تجزیے کی روشنی میں اپنی رائے انٹرنیٹ پر پیش کی کہ انسانی تاریخ کی وہ عظیم ترین اور بااثر شخصیت جس نے اپنی فکری، عملی اور اخلاقی قوت سے دنیا میں ایک عظیم اور مثالی انقلاب برپا کیا اور انسانی فکر و تاریخ کا دھارا موڑ کر سسکتی اور بلکتی انسانیت کو سعادت و فلاح کی راہ پر گام زن کیا، وہ پیغمبرِ اسلام، سرورِ کائنات، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔

''بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر!''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔