فلسطین میں ’’دہشت گردی کے جدِ امجد‘‘ کے گزشتہ تین سلسلے وار مضامین میں یہ بتانا مقصود تھا کہ فلسطین میں منظم ہتھیار بند سیاست کا آغاز عربوں نے نہیں صیہونیوں نے کیا تھا۔
ہم نے گزشتہ مضامین میں ہگانہ ، ارگون اور لیخی نامی تین دہشت گرد تنظیموں کا تذکرہ کیا۔جنھیں بعد ازاں اسرائیلی فوج کی باضابطہ شکل میں ڈھال دیا گیا۔آج یہ فوج اگر اپنے عسکری اجداد کے ڈی این اے کا حق ادا کر رہی تو حیرت کیوں۔آپ تو جانتے ہیں کہ اولاد ہی والدین کی وراثت آگے بڑھاتی ہے۔
بن گوریان سے بنجمن نیتن یاہو تک اسرائیل میں اب تک چودہ وزراِ اعظم آئے ہیں۔ان میں سے تین وزرائے اعظم بذاتِ خود دہشت گرد تھے۔ تینوں کا نظریاتی شجرہ صیہونی ترمیم پسند رہنما زیو جیوبٹنسکی سے جا ملتا ہے جو عربوں کی نسل کشی کے ایک بڑے وکیل تھے۔
پہلے سکہ بند دہشت گرد وزیرِ اعظم مینہم بیگن ہیں۔اسرائیل کی تشکیل سے قبل انیس سو تینتالیس تا اڑتالیس تک وہ مسلح ملیشیا ارگون کے سربراہ رہے۔ وارسا یونیورسٹی سے انیس سو تیس کی دہائی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔دوسری عالمی جنگ کے دوران بیگن پولینڈ اور لتھوینیا میں جرمنوں کے خلاف مزاحتمی تحریک میں سرگرم رہے۔
ستمبر انیس سو چالیس میں وہ اسٹالن کی خفیہ این کے وی ڈی کے ہتھے چڑھ گئے اور انھیں برطانوی ایجنٹ ہونے کے الزام میں آٹھ برس قید کی سزا سنا کے سائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بھیج دیا گیا۔جب جون انیس سو اکتالیس میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کی تو سوویت یونین نے پولش مزاحتمی تحریک کی سرپرستی شروع کر دی اور مینہم بیگن سمیت پولش قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
بیگن فری پولش آرمی میں شامل ہو گئے اور مئی انیس سو بیالیس میں ان کا فوجی یونٹ براستہ ایران و عراق فلسطین پہنچا۔یہاں انھوں نے آرمی سے طویل رخصت لے لی اور ارگون ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔بیگن نے بہت تیزی سے ارگون کی بالائی قیادت تک کا سفر طے کیا۔ان کے والد ، والدہ اور بھائی کی موت نازی کنسنٹریشن کیمپوں میں ہوئی۔اس پس منظر کے ساتھ مینہم بیگن کی شخصی سخت گیری سمجھ میں آ سکتی ہے۔
جب انیس سو چھتیس تا انتالیس برطانیہ کی کھلی یہود نواز پالیسی کے خلاف عام عربوں نے بغاوت کی تو برطانیہ نے مسلح صیہونی آبادکاروں کی مدد سے مزاحمت کو کچل ضرور دیا مگر آیندہ ایسے کسی شدید عرب ردِ عمل سے بچنے کے لیے برطانیہ نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور یہودیوں کی آمد کا کوٹہ انتہائی محدود کر دیا۔اس کے ردِ عمل میں مسلح صیہونیوں نے برطانیہ کو نشانے پر رکھ لیا۔
مینہم بیگن کا نظریہ یہ تھا کہ یہودیوں کو آئرلینڈ کی مزاحمتی تحریک کی طرح ایک ہتھیار بند چھاپہ مار جنگ شروع کرنی چاہیے۔جب برطانیہ تنگ آ کر یہودی مزاحمت سے سختی برتے گا تو ان یہودیوں کے حق میں ہمدردی کی عالمی لہر ابھرے گی جو یورپ میں موت و حیات کی کشمکش میں ہیں اور جان بچانے کے لیے فلسطین آنا چاہ رہے ہیں۔
ایک دن برطانیہ زچ ہوکر بوریا بستر لپیٹے گا تو اس کے بعد عربوں سے نمٹنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔لہٰذا جو صیہونی اس وقت مسلح جدوجہد کے بجائے سیاسی جدوجہد کے زریعے کسی حل کی امید رکھتے ہیں وہ دراصل احمق ہیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ مینہم بیگن کا تجزیہ حالات و واقعات نے درست ثابت کیا۔
ارگون ملیشیا کی مینہم بیگن کی سربراہی کے دور میں یروشلم میں امیگریشن اور انکم ٹیکس دفاتر پر حملے ، قاہرہ میں برطانوی نائب سفیر لارڈ میون کا قتل ، ایکر کی جیل پر حملہ کر کے چھبیس دہشت گردوں کو چھڑوانا ، برطانوی انتظامیہ کے مرکز کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو جولائی انیس سو چھیالیس میں بارود سے اڑانا نمایاں وارداتیں ہیں۔کنگ ڈیوڈ ہوٹل کی تباہی سے نہ صرف تب تک کی صیہونی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا ریکارڈ تلف ہو گیا بلکہ اکیانوے ہلاکتیں بھی ہوئیں۔بیگن کا ایک اور بڑا کارنامہ ارگون سے بھی زیادہ متشدد گروہ لیخی کے اشتراک اور سوشلسٹ صیہونی رہنما بن گوریان کی خاموش حمایت سے نو اپریل انیس سو اڑتالیس کے دن دیر یاسین گاؤں کے ڈھائی سو کے لگ بھگ عرب زن و مرد کا قتلِ عام تھا۔( اس کا تذکرہ گزشتہ مضامین میں تفصیلاً ہو چکا ہے )۔
مفرور مینہم بیگن کے سر پر برطانوی انتظامیہ نے دس ہزار پاؤنڈ کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔انھوں نے انیس سو چوالیس کے بعد اگلے چار برس نام ، مقام اور بھیس بدل بدل کے کام کیا۔اسرائیل کی تشکیل کے بعد بھی ارگون نے اپنا مسلح تشخص برقرار رکھنے کی کوشش کی اور بن گوریان کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔مگر بدلے حالات نے ارگون کو اسرائیلی فوج میں ضم ہونے پر مجبور کر دیا۔
بیگن نے چھاپہ مار زندگی ترک کر کے ہیروت (آزادی ) کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی۔اس جماعت کا منشور اردن سے بحیرہ روم کے ساحل تک عظیم تر اسرائیل کا قیام تھا۔ ان کے دہشت گرد ماضی کے سبب برطانیہ میں داخلے پر انیس سو بہتر تک پابندی رہی۔انیس سو تہتر میں ہیروت پارٹی نے دائیں بازو کے لیخود اتحاد کا روپ دھارا۔
بن گوریان اور بیگن ایک دوسرے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔جب بن گوریان نے انیس سو پچپن میں ہالوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کے لیے بطور زرِ تلافی پانچ ارب جرمن مارک کی رقم قبول کرنے کا معاہدہ کیا تو مینہم بیگن نے کہا کہ بن گوریان نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی لاشوں کا سودا کر کے جرمنی کے گناہ دھو ڈالے۔اس معاہدے کے خلاف بیگن نے یروشلم میں ایک بہت بڑے پرتشدد جلوس کی قیادت کی۔
جب انیس سو اناسی میں بیگن نے بطور وزیرِ اعظم جمی کارٹر کی ثالثی میں مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ سجھوتے پر دستخط کے بعد جزیرہ نما سینا مصر کو واپس کر دیا اور اس کے عوض سادات کے ہمراہ نوبیل امن انعام وصول کیا تو مخالفین نے طعنہ دیا کہ اردن سے بحیرہ روم تک عظیم تر اسرائیل کے وکیل نے اپنا نظریہ اپنے ہی ہاتھوں قتل کر دیا۔مگر بیگن حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آبادکار بستیوں کی تعداد دوگنی کر کے اور روس سے مزید دس لاکھ یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے اور انیس سو سڑسٹھ میں شام سے چھینی گئی گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں ضم کر کے سینائی کی مصر کو واپسی کی تلافی کر لی۔
لیخود پارٹی نے عہد کیا کہ سینائی کے بعد کوئی علاقہ بشمول غربِ اردن واپس نہیں کیا جائے گا۔اس پالیسی پر بیگن کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے عمل کیا۔
امریکی دباؤ پر انیس سو بانوے میں دو ریاستی حل بظاہر تسلیم کر لیا گیا مگر جب پی ایل او نے اس معاہدے کی قیمت کے طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر کے ہتھیار رکھ دیے تو دو ریاستی حل بھی عملاً دفن ہوتا چلا گیا۔
بیگن نے وزیرِ دفاع ایریل شیرون کے ساتھ مل کر ستمبر انیس سو بیاسی میں بیروت کے صابرہ و شتیلا کیمپوں میں تین ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کا قتلِ عام بھی کیا۔ایک عدالتی کمیشن نے بیگن کو بلاواسطہ اور شیرون کو براہ راست ذمے دار ٹھہرایا۔دونوں نے استعفی دے دیا۔بیگن نے سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اسی حالت میں نو مارچ انیس سو بانوے کو انتقال ہوا۔
بیگن کو ان کی وصیت کے مطابق ماؤنٹ ہرزل کے بجائے کوہِ زیتون کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔وہیں پر ارگون کے دہشت گرد مائر فینسٹائین اور موشے برزانی بھی دفن ہیں جنھیں اسرائیل کے قیام سے قبل ایک برطانوی عدالت نے دہشت گردی کی پاداش میں سزاِ موت سنائی تھی۔ دونوں نے تختہ دار پر جھولنے کے بجائے خود کو دستی بموں سے اڑا لیا۔
بیگن انیس سو انچاس کی پہلی کنیسٹ سے لے کر انیس سو تراسی تک مسلسل پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔دس اکتوبر انیس سو تراسی کو وزارتِ عظمی سے بیگن کے استعفی کے بعد ایک اور اشتہاری دہشت گرد نے کرسی سنبھالی۔اگلے مضمون میں اس کا احوال پیش ہو گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)