بچھو بیچا کروڑوں پائے۔۔۔۔!

سید بابر علی  اتوار 3 اگست 2014
اس جانور میں آخر کیا ہے ایسی بات، کیا لوگوں سے مال بٹورنے کے لیے افواہیں پھیلائی گئی ہیں؟۔ فوٹو: فائل

اس جانور میں آخر کیا ہے ایسی بات، کیا لوگوں سے مال بٹورنے کے لیے افواہیں پھیلائی گئی ہیں؟۔ فوٹو: فائل

سانپ، بچھو اور اس نوع کے دیگر جانوروں کو ہمیشہ سے انسان کا ازلی دشمن تصور کیا جاتا ہے۔

حضرتِ انسان نے ان موذی جانوروں خصوصاً بچھوئوں سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کی ہے۔ کئی دہائیوں سے بھوک و پیاس سے نبزدآزما تھر کے باشندوں کو بارش ایک طرف نئی زندگی بخشتی ہے تو دوسری طرف برسات کے موسم میں سانپ، بچھو جیسے رینگنے والے زہریلے جانوروں کا خوف بھی انہیں دامن گیر رہتا ہے۔ لیکن اب یہ خوف ان کی زندگیوں میں خوشی کی بہاریں لا رہا ہے۔ وہی زہریلے بچھو جنہیں دیکھ کر لوگ مار دیا کرتے تھے اب اُنہی زہریلے بچھوئوں کو اولاد سے زیادہ عزیز رکھا جا رہا ہے اور اُن کی افزائش نسل کی جارہی ہے۔

تھر جس کی خوب صورتی کے باوجود اس کے مصائب سے پُر شب وروز کے بارے میں سُن کر لوگ وہاں جانے سے کتراتے تھے، اب پاکستان بھر کے لوگوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے صحرائے تھر اور اس کے گرد ونواح میں راتوں رات امیر ہونے کے خواہش مندوں کی بھیڑ لگی ہے۔ یہ سب صرف ایک شے کی تلاش میں دن رات تھر کے طول وعرض میں سرگرداں ہیں۔ رات ہوتے ہی مٹھی، ننگر پارکر، اسلام کوٹ اور ضلع تھرپارکر کے دیگر علاقوں کے لوگ ’’کالے سونے‘‘ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

یہ لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کے خطرناک جانوروں میں سے ایک ’’کالے بچھو‘‘ کو زندہ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بڑا کالا بچھو انہیں راتوں رات کروڑ پتی بنا سکتا ہے۔ اسی لیے کالے بچھو کو کالا سونا کہا جانے لگا ہے۔ راتوں رات امیر بننے کی خواہش نے مقامی اور غیرمقامی لوگوں میں انتہائی زہریلے کالے بچھوئوں کو زندہ پکڑنے اور ان کی افزائش نسل پر مجبور کر دیا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہم نے اس زہریلے جانور کو مارنے کے بجائے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے درجنوں تاجر بچھوئوں کی خریداری کے لیے اس علاقے کا رُخ کر رہے ہیں۔ ننگرپارکر کے پالن بازار میں ہر ہفتے بچھوئوں کی مارکیٹ لگتی ہے۔ مقامی افراد پہاڑی علاقے کارونجھر سے پکڑے جانے والے چھوٹے بڑے بچھوئوں کو فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ جہاں پورے ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والے افراد وزن کے حساب سے رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، جب کہ کئی افراد نے اس کام کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں دفاتر بھی کھول رکھے ہیں۔ کچھ سرمایہ کاروں نے بچھوئوں کی افزائشں نسل کے لیے نرسریاں بھی قایم کر رکھی ہیں، جہاں کم وزن کے بچھوؤں کو ’’پال پوس کر بڑا‘‘ کیا جارہا ہے۔

بچھوؤں کی فروخت کے حوالے سے کراچی میں مڈل مین کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک شخص جنید (فرضی نام) نے بتایا کہ کراچی اس وقت بچھوئوں، لیوپارڈ جیکو چھپکلی (ہن کھن) اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی غیر قانونی خرید و فروخت کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ جنید کا کہنا ہے کہ کالے بچھوئوں کی خرید و فروخت کی اس گنگا میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اُس کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کی خرید و فروخت کا کام کلاسیفائیڈ ویب سائٹ کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ مفت میں اشتہار پوسٹ کرنے کے بعد خریدار اور فروخت کنندہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔

جنید نے بتایا کہ میں بچھو اور لیوپارڈ جیکو کی بروکری کرکے گذشتہ ڈیڑھ سال میں 30 سے 35 لاکھ روپے کمیشن کما چکا ہوں۔ جنید کا کہنا ہے کہ بہت سی بین الاقوامی کمپنیوں نے کراچی میں اپنے نمائندے مقرر کیے ہوئے ہیں جنہیں کمپنی کی طرف سے باقاعدہ لائسنس جاری کیے گئے تھے، لیکن گذشتہ ماہ تمام کمپنیوں کے لائسنس منسوخ ہوچکے ہیں اور اس وقت یہ تمام کام بلیک مارکیٹ میں ہو رہا ہے۔

کراچی کے متمول علاقے ڈیفنس میں واقع ایک کمپنی کے نمائندے ’’ع‘‘ سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ کمپنیوں کی طرف سے جاری کیے گئے لائسنس کی تجدید نہیں کی گئی ہے اور اس وقت یہ سارا کام نقد رقم پر ہو رہا ہے، جس سے ایک طرف تو قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب اغوا کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ میری اس بات کی تصدیق چند ماہ میں ہونے والے والی اغوا کی وارداتوں کے اعدادوشمار سے بھی کر سکتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ایک سو گرام کے کالے بچھو کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زاید ہے، جب کہ دوسو یا اس سے زاید وزن کے حامل کالے بچھو کے عوض کمپنیاں اربوں روپے دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

’’ع‘‘ کا کہنا ہے کہ  50گرام سے کم وزن کے بچھو کو کوئی بھی کمپنی نہیں خرید رہی، لیکن مقامی سرمایہ کار انہیں کوڑیوں کے مول خرید کر اُن کی افزائش نسل کر رہے ہیں۔ تاہم 50گرام کے بچھو کو ہر متعلقہ کمپنی کم از کم بھی 30سے40 لاکھ میں خرید رہی ہے۔ بچھو کی خریدوفروخت کے طریقۂ کار کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہم سے کوئی بچھو کو بیچنے کے لیے رابطہ کرتا ہے تو سب سے پہلے ہم اُس سے وزن کی تصدیق کرواتے ہیں، جس کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ ہمارا بروکر اُس شخص کے پاس پہنچ کر ڈیجیٹل اسکیل پر بچھو کا وزن کرتا ہے اور اپنا نام اور کوڈ (جو کمپنی فراہم کرتی ہے) لکھ کر چٹ لگا دیتا ہے۔

اس سارے طریقۂ کار کی ویڈیو بنا کر ہمیں ای میل یا (انٹرنیٹ کی وڈیو اور پکچرز کی شیئرنگ کی سائٹ) ’’واٹس ایپ‘‘ کے ذریعے بھیج دی جاتی ہے۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد ہم بچھو کے مالک کو اپنی آفر دے دیتے ہیں اور اگر وہ اس پر متفق ہوجائے تو ہم کمپنی کے ڈاکٹر کو بھیج کر بچھو کا میڈیکل کرواتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں پورے بچھو کو ڈنک سمیت اسکین کیا جاتا ہے۔

میڈیکل کے بعد ملاقات کی جگہ کا تعین کیا جاتا ہے اور فروخت کنندہ کی مطلوبہ رقم نقد، بانڈز یا ٹریول چیک کی شکل میں ادا کرکے ڈیل فائنل کردیتے ہیں۔ تاہم یہ طریقۂ کار50 گرام یا اُس سے بڑے بچھو کے لیے ہے، کیوں کہ اس سے کم وزن کے بچھو ئوں کو سرمایہ کار ہی خریدرہے ہیں، جب کہ لیوپارڈ جیکو چھپکلی (ہن کھن) کی خریدوفروخت کے لیے بھی یہی طریقۂ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم آج کل لیوپارڈ جیکو کی قیمت میں کافی کمی آچکی ہے اور سو گرام کی جو چھپکلی چند ماہ قبل لاکھوں روپے میں بک رہی تھی، اب اس کی قیمت کم ہوکر ہزاروں میں ہوگئی ہے۔

دوسری طرف محکمۂ جنگلی حیات سندھ کے سربراہ جاوید احمد مہر کا کہنا ہے کہ کالے بچھوئوں اور لیوپارڈ جیکو کی خریدوفروخت کے حوالے سے تمام باتیں محض افواہ ہیں، جس کا سراسر نقصان چھوٹے سرمایہ کاروں کو ہے جو راتوں رات دولت کمانے کی کوشش میں کچھ جعل سازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند سو روپے کے بچھو کی مصنوعی طلب بڑھا کر اُس کی قیمت کو لاکھوں کروڑوں میں پہنچا دیا گیا ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خریدنے والے آپ سے اُس وزن کے بچھو کی بات کرتے ہیں جو کہ تقریباً ناپید ہے، مثال کے طور پر وہ 50گرام یا اُس سے اوپر کے وزن کی بات کرتے ہیں جو کہ شاد و نادر ہی ہوتا ہے۔

جاوید احمد نے کہا کہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے افواہیں اُڑائی گئیں ہے کہ جناب بچھو سے کینسر، ایڈز اور دیگر لاعلاج بیماریوں کی ادویات بن رہی ہیں، لیکن عقل سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کمپنی نے بچھو یا اُس کے زہر سے ایڈز یا کینسر کی دوا بنالی ہوتی تو اب تک دنیائے طب میں تہلکہ مچ گیا ہوتا۔ اُنہوں نے بتایا کہ کالے بچھو کا استعمال صرف ایک ہی ہے کہ چین میں اسے بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے اور اس کام کے لیے وہ بڑے بڑے فارم ہائوس بناکر اُن کی افزائش نسل کرتے ہیں۔

جاوید احمد نے کہا کہ بات صرف اتنی سی ہے کہ چند سال قبل چینی انجینئرز کی ایک ٹیم نے اندرون سندھ کا دورہ کیا تھا اور کھانے کے لیے چند مقامی لوگوں سے بچھو خریدنا شروع کر دیے تھے، جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے بچھوئوں کو بہت ہی منہگی شے سمجھ لیا۔ میں آپ کو بتادوں کہ جب جام شورو پاور پراجیکٹ بن رہا تھا تو وہاں موجود چینی انجنیئرز نے مقامی لوگوں سے کھانے کے لیے کتے بھی خریدے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے بین الاقوامی قانون کے تحت کسی بھی جانور کو بڑے پیمانے پر درآمد کرنا غیرقانونی ہے۔

اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ بچھوئوں یا لیوپارڈ جیکو کو درآمد کیا جا رہا ہے تو کیا وہاں کے امیگریشن حکام اتنے نا اہل ہیں کہ وہ آج تک ایک بھی بچھو یا لیوپارڈ جیکو چھپکلی کو نہیں پکڑ پائے۔ میں آپ کو بتادوں کہ بچھوئوں کے ذریعے راتوں رات امیر بننے کے چکر میں متعدد افراد اپنی جمع پونجی لٹا چکے ہیں اور کئی لوگ اب تک لٹا رہے ہیں۔ جاوید مہرنے بتایا کہ یہ محض ایک طرح کی ’’پونزی اسکیم‘‘ ہے، جس میں ایک عام سی چیز کی قیمت لاکھوں کروڑوں تک پہنچائی جاتی ہے اور آخر میں تمام افراد اپنی رقم گنوا بیٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالے بچھو اور لیوپارڈ جیکو چھپکلی محکمہ جنگلی حیات کی ’’پروٹیکٹد اینیمل‘‘ کی فہرست میں شامل نہیں تھی لیکن میڈیا میں اس کی خریدوفروخت کے حوالے سے آنے والی خبروں کے بعد ہم نے ان رینگنے جانوروں کو ’’پروٹیکٹد اینیمل ‘‘ کا درجہ دے دیا ہے۔ جاوید احمد کا کہنا ہے کہ بچھو اور لیوپارڈ جیکو سمیت کسی بھی جنگلی حیات کو پکڑنے یا مارنے پر دو لاکھ روپے تک جرمانہ اور چھے ماہ سے ایک سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں صرف آزاد کشمیر میں ایک کیس رجسٹر ہوا ہے۔

اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے ’’سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2014‘‘ کے نام سے ایک بل سندھ اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا ہے، جسے منظوری کے بعد فوراً نافذ کردیا جائے گا۔ اس بل میں بچھو اور لیوپارڈ جیکو سمیت دیگر جانوروں کو پکڑنے، ان کی خریدوفروخت کے حوالے سے سو سے زاید سیکشن بنائے گئے ہیں۔ بچھو کی نسل معدوم ہونے سے ماحول کو لاحق خطرات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بچھو کی نسل ختم ہونے سے نہ صرف ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہوگا، بل کہ اس خطے میں جانوروں کی غذائی زنجیر بھی متاثر ہوگی، جس سے ایک طرف حشرات الارض کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب مور جیسے پرندوں کی نسل بھی متاثر ہوگی، کیوں کہ بچھو مور کی پسندیدہ خوراک میں سے ایک ہے۔

’’ کالے سونے‘‘ کے اس دھندے میں ایک بار پھر تھر کے معصوم شہریوں کا استحصال کیا جا رہا ہے اور اُن سے کوڑی کے مول خریدنے جانے والے کالے بچھوئوں کو کراچی میں سونے سے بھی زیادہ قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے۔ ٹھٹھہ، بدین اور تھرپارکر میں نہ صرف کالے بچھو بل کہ سانپ، چھپکلی اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی غیرقانونی فروخت کا دھندا بھی عروج پر ہے۔ بہ ظاہر محکمۂ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے کالے بچھوئوں کی خریدوفروخت پر پابندی عاید کردی گئی ہے لیکن بلیک مارکیٹ اور اسمگلنگ کے ذریعے ’’کالے سونے‘‘ کے اس نئے دھندے نے ضلع تھرپارکر اور دیگر علاقوں میں کالے بچھوئوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی نسل کو معدومی کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

WWF (ورلڈ وائڈ برائے نیچر) پاکستان کے کنزرویشن کوآرڈی نیٹر سعید الاسلام کا کہنا ہے کہ محکمۂ جنگلی حیات، جنگلی حیات کے لیے کوئی مخصوص لائسنس جاری نہیں کرتا اور یہ لائسنس بہت نایاب جنگلی حیات کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب تو تقریباً ہر جانور بشمول رینگنے اور چلنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ تاہم شمالی علاقہ جات میں پائے جانے والے کچھ جانوروں (مار خور، آئی بیکس اور سائبیریا سے آنے والے پرندے) کے شکار کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کی فیس بھی لاکھوں یا ہزاروں ڈالر میں ہوتی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کافی عرصے پہلے کچھ مخصوص جانوروں کے لیے محدود پیمانے پر لائسنس جاری ہوتے تھے، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے، کیوں کہ اب تقریباً ہر جنگلی حیات معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ کالے بچھوئوں کی فروخت کے حوالے سے سعیدالاسلام کا کہنا ہے کہ کالے بچھوئوں کی نسل ختم یا اُن کی تعداد میں کمی ہونے سے ہمارا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہوگا۔

اس کی مثال اس طرح سے ہے کہ اگر آپ زنجیر میں سے ایک کڑی نکال دیں تو پوری زنجیر بے کار ہوجاتی ہے تو اسی طرح اگر بچھو ناپید ہوگئے تو اس سے ایک طرف ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہوگا تو دوسری طرف غذائی زنجیر بری طرح متاثر ہوگی۔ بچھو کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں، لہٰذا ان کے معدوم ہونے کی صورت میں حشرات الارض کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے گی، جس سے بیماریوں میں اضافہ ہوگا۔ آپ اس طرح سمجھ لیں کہ نہ صرف بچھو بل کہ کسی بھی جان دار کی نسل ختم ہونے کا نتیجہ انسان ہی کو بھگتنا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کالے بچھو میں پوٹاشیم سمیت دیگر مخصوص کیمیائی مادوں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور طب کے شعبے میں ہونے والی نئی تحقیق میں اس کا کافی استعمال کیا جارہا ہے۔ بچھو کے زہر اور جسم میں موجود کیمیکلز کا کینسر، دافع درد، ایڈز اور جنسی ادویات کی تیاری میں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر استعمال بہت زیادہ ہے اور کالے بچھو کے جسم میں پائے جانے والے کچھ مخصوص کیمیکلز کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جسم میں پائے جانے والے مخصوص کیمیکلز کی وجہ اس سے بننے والی ادویات کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع تھرپارکر اور سندھ کے دیگر شہروں میں صرف کالے بچھو ہی کو پکڑا جا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں میں کالے بچھو کی نسل ختم ہونے سے پیدا ہونے والے نقصانات کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے ہم نے کافی کوششیں کی ہیں، لیکن کالے بچھو کی غیرقانونی فروخت میں کمی نہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ سب سے پہلا سبب غربت ہے۔ وہاں لوگوں کے پاس کھانے کے لیے نہیں ہے تو اگر کوئی اُن سے مٹی بھی خریدے گا تو بنا سوچے سمجھے مٹی بھی بیچنا شروع کردیں گے۔

ایک غیرسرکاری تنظیم ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو صرف سمجھا سکتے ہیں، اُنہیں بہ زورِ روک نہیں سکتے، کیوں کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ حکومتِ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ بچھو یا کسی بھی جانور کی غیرقانونی طور فروخت میں ملوث فرد پر 50ہزار روپے جرمانہ اور 6ماہ جیل کی فردِجرم عاید کرسکتا ہے۔ ہم لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے ہرممکن حد تک کمیونٹی اور اداروں کی سطح پر تربیت فراہم کرتے رہتے ہیں۔

سعید الاسلام نے بتایا کہ کالے بچھو کی معدومی کے اثرات اتنی جلدی ظاہر نہیں ہوں گے، کسی بھی جانور کی معدومی کے اثرات کئی سالوں عشروں میں سامنے آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نہ صرف بچھو بل کہ لیوپارڈ جیکو چھپکلی اور اس نسل کی دیگر چھپکلیوں، کیکڑوں اور دیگر ریپٹائل (رینگنے والے جانور) کی بھی غیرقانونی خرید و فروخت کی جا رہی ہے اور یقیناً ان سب کی تعداد میں کمی سے ایکو سسٹم پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سالوں بعد سامنے آئیں گے۔ ایکوسسٹم میں معمولی سی تبدیلی کے نتائج بھی ہم انسانوں ہی کو بھگتنے پڑیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے بچھو، سانپوں اور دیگر رینگنے اور چلنے والے جانوروں کی تجارت کو روکنے کے لیے یو ایس ایمبیسیڈر فنڈ کو ایک پروپوزل پیش کیا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دائرہ کار بڑھانے، کمیونٹی کی سطح پر شعور اجاگر کرنا اور ان جانوروں کی تجارت کی روک تھام کے لیے اقدامات وضح کیے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے ایک مخصوص مدت کے بعد سروے کیے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ دو سال میں ریپٹائل کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے۔

کالے بچھوئوں کی خرید و فروخت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس دھندے میں ملوث لوگوں کو ایک طرف اس بات کا اندیشہ ہے کہ کالے بچھوئوں کے پکڑنے پر پابندی لگ جائے گی تو دوسری طرف انہیں اس پابندی کی وجہ سے کالے بچھو کی قیمت میں اضافے کی امید بھی ہے۔

پاکستان سے کالے بچھو کی بڑے پیمانے پر اسمگلنگ نے سندھ میں کالے بچھوئوں کے علاوہ پیلے بچھوئوں کا وجود بھی بہ ظاہر ختم کردیا ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ کچھ مفادپرست عناصر پیسوں کے لالچ میں بچھوئوں کے بچوں کو بھی بڑی تعداد میں پکڑرہے ہیں حالاںکہ ان کی قیمت چند سو روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ کالے بچھوئوں کا شکار بہت خطرناک ہوتا ہے اور اندازے کی ذرا سی غلطی موت سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ کالے بچھوئوں کا زہر گر چہ جان لیوا نہیں ہوتا، لیکن اس کا ڈنک انسان کو شدید تکلیف میں مبتلا کرسکتا ہے اور متاثرہ شخص چند لمحوں میں لقمۂ اجل بن سکتا ہے۔

پنجاب اور سندھ کے کئی سرمایہ دار اور وڈیرے بھی اس دھندے میں ملوث ہوچکے ہیں، جنہوں نے اپنے ملازمین کی ٹیمیں بناکر اُنہیں بچھوئوں کی تلاش پر لگا دیا ہے۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں شہری اور دیہی علاقوں کے سیکڑوں لوگ سارے کام چھوڑ کر اس پراسرار دھندے سے دولت مند بننے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں، لیکن اب تک ان میں سے صرف چند ہی لوگ کچھ پیسے کما سکے ہیں۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے نوجوان خالد (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ مجھے میرے دوست نے اس کام کے بارے میں بتایا۔ میں نے کلاسیفائیڈ ویب سائٹ پر جب بچھوئوں کی قیمت دیکھی تو میرے دل میں بھی لالچ آگیا اور کچھ اپنی جمع پونجی اور کچھ اپنے دوست سے ادھار لے کر 55 ہزار روپے میں 4 بچھو خرید لیے، لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان کا وزن دس گرام سے بھی کم اور قیمت 2ہزار روپے سے زیادہ نہیں تھی۔

یہ ایک خالد کا ہی قصہ نہیں ہے، بل کہ خالد جیسے سیکڑوں نوجوان اس چکر میں اپنی جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں، کیوں کہ نام نہاد کمپنیوں کے نمائندے 50 گرام سے کم وزن کے بچھو کو خریدنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس وزن کا بچھو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر عوام میں اس فراڈ کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے اور اس کام میں ملوث عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، تاکہ لوگ اپنا پیسہ گنوانے سے محفوظ رہیں اور روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے نوجوان ’’شارٹ کٹ‘‘ سے دولت کمانے کے بجائے محنت پر یقین رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر گام زن ہوں۔

کالے بچھو کے بارے میں چند دل چسپ حقائق:

٭بچھو زمین پر پائی جانے والی قدیم ترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ کرۂ ارض پر اس کا وجود تقریبا ً 30کروڑ سال سے ہے۔

٭طبی مقاصد کے لیے کالے بچھو کو موزوں تصور نہیں کیا جاتا۔

٭کالے بچھو کا وزن اوسطاً 30گرام اور لمبائی تقریبا ً 20سینٹی میٹر ہوتی ہے۔

٭اب تک دنیا کے سب سے بڑے کالے بچھو کی لمبائی  23 سینٹی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔

٭کالا بچھو افریقا کے بارانی جنگلات کی اسپی شیز ہے۔

٭ کالے بچھو کی اوسط عمر 8سال ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔