امریکا کی معروف جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک طالبہ سیسیلیا کلور نے یونیورسٹی پر سنگین الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کی دی گئی تعلیمی فیس کو فلسطین کے علاقے غزہ میں جاری نسل کشی کیلئے مالی معاونت کے طور پر استعمال کیا گیا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیسیلیا کلور نے فلسطینیوں کے حق میں ایک پرامن احتجاج کے دوران کہا: "مجھے افسوس ہے کہ میری فیس کو ایسی سرگرمیوں میں استعمال کیا گیا جنہوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی زندگیاں چھین لیں۔ میں ایسے حالات میں اپنی گریجویشن کا جشن نہیں منا سکتی۔"
طالبہ نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے احتساب کے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔
سیسیلیا کا کہنا تھا کہ: "اس دوران کتنے ہی فلسطینی طلبہ کو تعلیم سے روک دیا گیا؟ یہ سوال بھی اہم ہے۔"
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے: "ہم کسی بھی پالیسی کی ممکنہ خلاف ورزی پر مکمل تحقیقات کر رہے ہیں۔ ادارہ اپنے طلبہ کی رائے کا احترام کرتا ہے۔"
یونیورسٹی میں طلبہ کے ایک طبقے نے یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاری کے تمام ذرائع کو شفاف بنائے اور اگر کہیں بھی جنگی اقدامات کی حمایت ہو رہی ہے تو اس سے فوری علیحدگی اختیار کی جائے۔
یہ واقعہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے ادارے، اور متعدد امریکی ماہرین معاشیات بھی غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو "نسل کشی" قرار دے چکے ہیں، اور یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ امریکی مالی و عسکری مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھی۔