نیویارک:
نیویارک کیتھولک چرچ اور 1300 سے زائد متاثرین نے جنسی زیادتی کے ہولناک الزامات پر میڈی ایشن کے ذریعے تصفیے پر اتفاق کر لیا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کی تاریخ میں چرچ کا سب سے بڑا مالی اسکینڈل ثابت ہوسکتا ہے۔
جنسی استحصال کے یہ کیسز 1952 سے 2020 تک کے ہیں جن میں پادریوں اور چرچ کے عملے پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے سنگین الزامات شامل ہیں۔
متاثرین کے وکیل جیف اینڈرسن نے بتایا کہ نیویارک آرچ ڈائیوسیز نے اگلے دو مہینوں میں ممکنہ بھاری بھرکم تصفیے پر بات چیت کی منظوری دے دی ہے۔
نیویارک چرچ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ متاثرین کو ادائیگی کے لیے 300 ملین ڈالر اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے عملہ فارغ کیا گیا، اخراجات کم کیے گئے اور چرچ کی جائیدادیں فروخت کے لیے رکھ دی گئیں۔
کیتھولک چرچ کے کارڈینل ٹموتھی ڈولن نے کہا کہ ہماری تاریخ کا یہ سیاہ باب شرمندگی کا باعث ہے اور ایک بار پھر معافی مانگتا ہوں۔
ماہرین کے مطابق ادائیگی کا حجم 880 ملین ڈالر سے بھی تجاوز کرسکتا ہے جو 2024 میں لاس اینجلس آرچ ڈائیوسیز کے متاثرین کو دیا گیا تھا، اور وہ بھی اسی جج کی نگرانی میں ہوا تھا جو اب نیویارک کیس کی میڈی ایشن کریں گے۔
چرچ کا کہنا ہے کہ معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ ہے کہ ان کی بیمہ کمپنی Chubb گزشتہ دہائیوں کے پالیسیوں کے تحت جنسی زیادتی کیسز کے کلیمز ادا کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
متاثرین کے وکیل کے مطابق چرچ کے لیے اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ معاملہ امریکا میں مذہبی اداروں کے سب سے بڑے اور سنگین جنسی اسکینڈلز میں سے ایک بنتا جا رہا ہے اور اگلے چند مہینوں میں اس کا فیصلہ نئے ریکارڈ قائم کر سکتا ہے۔