پروفیسر انور مسعود کی نوے ویں سالگرہ

انور مسعود صاحب کا حُسنِ بیان اور ان کی حیران کن یادداشت بھی ربّ ِ کریم کا خصوصی عطیہ ہے


[email protected]

چند ہفتے قبل پروفیسر انور مسعود کے صاحبزادے عاقب انور نے فون پر بتایا کہ ’’والد صاحب ماشاء اللہ زندگی کی نوّے بہاریں دیکھ چکے ہیں، لہٰذا ان کی فیمیلی ان کی سالگرہ منانے جارہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ والد صاحب نے تاکید کی ہے کہ آپ نے ضرور شریک ہونا ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’میرے لیے اس مبارک تقریب میں شرکت، مسرّت وافتخار کا باعث ہوگی،میں ضرور آؤں گا‘‘۔

پروفیسر انور مسعود بلاشبہ ایک غیر معمولی شخصیّت ہیں، اس وقت اردو اور پنجابی زبان برِّصغیر کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف خطوں میں بولی یا سمجھی جاتی ہے، مگر پوری دنیا میں مزاحیہ اور فکاہیہ شاعری میں کوئی دوسرا شاعر انور مسعود کے مقام تک نہیں پہنچ سکا، اس لحاظ سے وہ شگفتہ شاعری کے ورلڈ چیمپئن ہیں، اور وہ بھی Unchallanged champian۔ جن کا کوئی مقابلہ ہی نہیں اور دور دور تک کوئی حریف بھی نظر نہیں آتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شگفتہ شاعری میں ان کا وہی مقام ہے جو باکسنگ میں محمد علی کا ہے، بظاہر شاعری کا باکسنگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا مگر میں نے قصداً ان کی محمد علی سے تشبیہہ اس لیے دی ہے کہ محمد علی بھی بے پناہ مقبول تھا، لوگ اس سے بے حد محبت کرتے تھے مگر وہ محبّت صرف باکسنگ میں اس کی مہارت یا کامیابیوں کی وجہ نہیں تھی، عوام کی عقیدت اس کے دوسرے اوصاف کی وجہ سے بھی تھی، جن میں اس کی جرأت، اصولوں کے لیے ڈٹ جانا، حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور اسلام کا بڑی جرأت کے ساتھ دفاع بھی شامل ہے۔ اسی طرح انور مسعود صاحب بھی خاص وعام میں بے حد مقبول ہیں، مگر مقبولیت کی وجہ صرف ان کی شاعری نہیں بلکہ اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن کا بعد میں ذکر ہوگا۔

پروفیسر صاحب کے بیٹوں نے بتایا ہے کہ وہ نوّے سال کے ہوگئے ہیں مگر ان کی باتوں سے، ان کے تازہ کلام سے اور ان کے اشعار سے ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا، ان کے شعروں اور قطعات سے تو لگتا ہے کہ شاعر کچھ عرصے بعد اپنی پچاسویں ساگرہ منائے گا۔ لوگ ساٹھ کے پیٹے میں ہوں تو انھیں طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں، جسمانی سے زیادہ ذہنی پریشانیوں کا شکار ہوکر اکثر لوگ زود رنج اور چڑچڑے سے ہوجاتے ہیں جس سے ان کا کام، خرام اور کلام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔

مگر انور مسعود صاحب کی عام گفتگو بھی انتہائی شگفتہ اور قہقہوں بھری ہوتی ہے۔ ان سے فون پر جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو کوئی فقرہ، لطیفہ یا مصرع ایسا سنا دیتے ہیں جس سے طبیعت نہال ہوجاتی ہے اور سارادن موڈ خوشگوار رہتا ہے۔ ان کی اچھی صحت اور خوشگوار طبیعت کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا ضمیر صاف اور مطمئن ہے، شاعر یا فنکار عموماً اکل وشرب کے ضمن میں جن بے احتیاطیوں کا شکار ہوکر قلب وجگر مضروب کرا بیٹھتے ہیں، انور مسعود صاحب کی شامیں اور راتیں ان خرفات سے پاک ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کی اجلی حیات اور پاکیزہ نظریات کے باعث خالقِ کائنات نے انھیں انتہائی خدمت گزار بیٹوں (عاقب، عمار اور جواد) سے نوازا ہے۔ کبھی بات ہوتو کہتے ہیں کہ ’’لگتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں بیٹوں کو میری خدمت کے لیے ہی بھیجا ہے‘‘۔

جولائی میں جب بارش ہوجائے تو خربوزوںکی مٹھاس کم ہوجاتی ہے، اُس موسم میں ہمارے گاؤں کے بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ ’’مٹھّا خربوزہ تے چنگی نُوں، قسمت والیاں نوں ای ملدی اے‘‘ (میٹھا خربوزہ اور اچھی خدمت گزار بہو خوش قسمت والدین کوہی ملتی ہے) اس لحاظ سے بھی انور مسعود صاحب بہت خوش قسمت ہیں کہ انھیں بہوویں بھی کمال کی ملی ہیں جو ان کی خدمت گزاری میں بیٹوں سے کسی صورت کم نہیں بلکہ دو ہاتھ آگے ہی ہیں۔

اسلام آباد کلب میں منعقد ہونے والی سالگرہ کی تقریب انتہائی شاندار تھی، جس کے انتظام وانصرام کی انچارج عاقب انور کی بیگم روشین عاقب (امجد اسلام امجد صاحب کی بیٹی) تھیں۔ انتہائی عمدہ انتظامات پر بلاشبہ وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ تقریب کے آغاز میں عمّار کی بیگم نے انور مسعود صاحب پر اپنی تیّار کردہ ایک ڈوکومینٹری فلم دکھائی، ڈوکومینٹری بھی اپنے مواد اور تیکنیکی پہلوؤں کے لحاظ سے بہت عمدہ اور اعلیٰ معیار کی تھی، اس پر مسز شنیلہ عمار بھی شاباش اور مبارکباد کی حقدار ہیں۔ عمّار اسٹیج سیکریٹری تھے، انھوں نے بھی اپنے فرائض عمدگی سے نبھائے، تقریب میں جناب افتخار عارف، جلیل عالی، پروفیسر احسان اکبر، اظہار الحق، کشور ناہید، محبوب ظفر، سیرت اصغر اور مسز رعنا سیرت سمیت جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والی شعر وادب کی تمام معروف شخصیات موجود تھیں، جن چند لوگوں کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی، ان میں راقم بھی شامل تھا۔ اپنی گفتگو کے چند اقتباس شیئر کررہا ہوں:

مزاح ادب کی سب سے مشکل صنف سمجھی جاتی ہے، بڑے بڑے مزاح نگار بہک جاتے ہیں، شائستگی کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور غیر معیاری اور بازاری زبان کا سہارا لینا شروع کر دیتے ہیں مگر پروفیسر انور مسعود صاحب نے ان سہاروں کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی، ان کا سارا کلام ایسی آلائشوں سے مکمّل طور پر پاک ہے۔ ان کے ہاں صرف شائستگی، شستگی اور شگفتگی ہے اور بڑی فراواں ہے۔

مزاح میں ان کی کچھ نظمیں تو کلاسیک کی حیثیّت رکھتی ہیں اور بڑوں کے علاوہ بچوں کو بھی زبانی یاد ہیں، بنین، بھولیے مجّے، اج کیہہ پکائیے، پنڈ دی پنچائیت، جہلم دا پل اور جنّت میں ووٹ کے لیے حوروں کی آؤ بھگت والی نظمیں بے مثال ہیں۔ مریض کو ڈاکٹر کی ہدایات والی نظم کا بھی جواب نہیں، جب ایک مریض کا ایسے ڈاکٹر سے واسطہ پڑجاتا ہے جو اسے بے تحاشا دوائیوں کے کورس کرانے پر تلا ہوا ہے، وہ اسے چیک کرنے کے بعد کہتا ہے۔

 ؎ ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں۔ اب اس ایک مصرع میں ایسے ڈاکٹروں کی پوری کہانی بیان کردی گئی ہے۔

جب انھوں نے سنجیدہ غزلیں کہی ہیں تو وہ بھی کمال کی ہیں،

؎ دل سلگتا ہے ترے سرد روّیے سے مرا

 ہائے اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے

 پھر ایک جگہ کہا ہے

؎یہی اندازِدیانت ہے تو کل کا تاجر

 برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

انور مسعود صاحب کا حُسنِ بیان اور ان کی حیران کن یادداشت بھی ربّ ِ کریم کا خصوصی عطیہ ہے، اس عمر میں بھی وہ طویل نظمیں ڈائری کی مدد کے بغیر سناتے ہیں، جس پرسامعین عش عش کر اُٹھتے ہیں۔ چند سال پہلے ہم نے اسلام آباد کلب میں ایک تقریب منعقد کی تھی جس میں مشتاق احمد یوسفی صاحب اور انور مسعود صاحب دونوں ایک ساتھ جلوہ گرہ ہوئے۔ میرے خطبۂ استقبالیہ کے بعد یوسفی صاحب نے اپنی تحریروں کے اقتباس سنائے اور حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔ ہال خواتین و حضرات سے کھچا کھچ برا ہوا تھا، جتنے لوگ بیٹھے تھے اتنے ہی کھڑے تھے۔ رات کے گیارہ بجے عشائیے کا وقفہ کیا گیا، آدھی رات کے بعد ہم نے معذرت کرتے ہوئے انور مسعود صاحب کو روسٹرم پرآنے کی دعوت دی، خیال تھا کہ کھانے کے بعد مجمع چھٹ جائے گا ۔ مگر ایک شخص کی بھی کمی نہ ہوئی۔ رات کے ایک بجے مجمع کو مٹھی میں لے لینا صرف انور مسعود صاحب کا ہی کمال ہے۔ سوا ایک بجے جب کلب والوں نے لائٹیں بند کرنی شروع کردیں تو سامعین انور صاحب سے مزید سنانے کی فرمائشیں کررہے تھے۔

پروفیسر صاحب کے ساتھ میرا تعلق بہت دیرینہ ہے، مگر اُن کے ساتھ دو رشتوں نے اس تعلق کو بہت مستحکم بنادیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم دونوں پیر بھائی ہیں، پروفیسر صاحب بھی اور میں بھی مریدانِ اقبالؒ میں سے ہیں۔ مجھے اپنی بے علمی اور کم مائیگی کا احساس ہے کہ مرشد اقبالؒ کا زیادہ بلند پایہ کلام فارسی میں ہے اور میں فارسی سے نابلد اور ناآشنا ہوں، مگر انور مسعود صاحب فارسی کے استاد بھی ہیں اور شاعر بھی۔ اس لیے اقبال کے فارسی اشعار کا مطلب سمجھنے کے لیے میں اکثر پروفیسر صاحب سے رجوع کرتا ہوں، اور وہ ان شعروں کے علاوہ ان کے ہم معنی، علاّمہؒ کے کئی اور اشعار بھی سنادیتے ہیں۔

ان سے دوسرا تعلق یہ ہے کہ ان کی محبت اور عقیدت کا مرکز اور محور بھی دینِ حق اسلام اور پاکستان ہے۔ وطنِ عزیز کے بارے میں کہیں کوئی منفی بات پڑھتے یا سنتے ہیں تو ملک سے گھر کی طرح شدید محبّت کرنے والے حسّاس انسان کی طرح بے قرار ہوجاتے ہیں، کچھ احسان فراموش اور گمراہ لوگ جب پاکستان یا بانیانِ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور میں اپنے کالموں میں ان کے کھوکھلے اور بودے دلائل کو رد کرتا ہوں تو صبح ہی صبح فون کرکے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور دیر تک حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نظریۂ حیات اور اپنے ملک سے محبت بھی ان کی پہچان اور شان ہے۔ بلاشبہ پروفیسر انور مسعود اس ملک کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انھیں قابلِ رشک صحت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائیں تاکہ ہر سال ان کی سالگرہ کی محفلیں بپا ہوتی رہیں اور ہم ہر سال انھیں پھُول پیش کرتے رہیں۔

مقبول خبریں