ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے 14 سوالات

ہمیں ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے فوج آخری بار بتادے کہ ہم کیا کریں، الطاف حسین


ویب ڈیسک September 26, 2014
آرمی چیف اپنے منصب سے انصاف کریں، قائد ایم کیوایم، فوٹو:فائل

ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے 14 سوالات کرتے ہوئے کہا ہےکہ ان کے سوالات ایک ایک مہاجر کی آواز ہیں۔

ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے پوچھے گئے پہلے سوال میں کہا گیا ہے کہ رینجرز نے کراچی آپریشن کے دوران جگہ جگہ چھاپے مار کر ایم کیوایم کےکارکنان کو گرفتار کیا جن میں سے 41 کارکن تاحال لاپتا ہیں۔ دوسرے سوال میں کہا گیا ہے کہ رینجرز کی حراست کے دوران ایم کیوایم کے جاں بحق کارکنان کی لاشیں سڑکوں پر پھینکی گئیں، فوج کے اس خود احتسابی عمل کے دوران تشدد کے ذریعے ایم کیوایم کے کارکنان کو ہلاک کرنیوالے کتنے افسران اور سپاہیوں کو سزا دی گئی؟

الطاف حسین کی جانب سے کیے گئے تیسرے سوال میں کہا گیا ہےکہ کراچی بد امنی کیس میں سپریم کورٹ بینچ نے فیصلہ دیا کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں ، تنظیموں کے عسکری ونگز ہیں جن میں دیگر جماعتوں کے نام لیے گئے لیکن ماورائے عدالت قتل ، چھاپے گرفتاریوں کا مرکز صرف ایم کیوایم کے رہنماؤ ں اور کارکنوں کیوں بنایا گیا؟ قائد ایم کیوایم نے اپنے چوتھے سوال میں کہا کہ کسی بھی ملک کی فوج اتحاد کی علامت ہوتی ہے لیکن 1992 میں کیے گئے آپریشن کا رخ صرف ایم کیوایم کی جانب موڑا۔ ایم کیو ایم کے قائد کا پانچویں سوال میں کہنا تھا کہ سابق برگیڈیئر آصف ہارون نے جناح پورکا خود ساختہ جعلی نقشہ تقسیم کیا جس کے گواہ ریٹائرڈ فوجیوں کی حیثیت سے زندہ ہیں، اس پر اقوام متحدہ کی عدالت لگا لی جائے یا جی ایچ کیو میں عوامی عدالت لگالی جائے اوران کی گواہی اس ضمانت کے ساتھ لی جائے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

آرمی چیف سے چھٹے سوال میں کہا گیا ہے کہ میرے بھائی اور بھتیجے کو 1995 میں گولیاں مار کر کس جرم میں شہید کیا گیا جبکہ ان کے قاتل گرفتار کیوں نہ ہوسکے،ساتویں سوال میں کہا گیا ہے کہ کیا فوج کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ جب کہیں آپ آپریشن کریں ، چھاپے ماریں ، گرفتاریاں کریں تو وہاں ماں ، بہن کو زدو کوب کریں ، ان کی بے حرمتی کریں حتیٰ کے ہمیں ''را'' کا ایجنٹ بھی کہا گیا، فوج اتحاد کی علامت ہوتی ہے کیا لسانیت اور صوبائیت بانٹنے کا کام انجام دینا بھی فوج کے فرائض میں شامل ہے۔ قائد ایم کیوایم نے اپنے آٹھویں سوال میں کہا کہ 1992 میں گھروں اور دفاتر پر چھاپے مار کر ویڈیو، فوٹو اور لٹریچر ضبط کیا گیا جس کو واپس کرنے کی درخواست کی جو پارٹی کا اثاثہ ہے لیکن اس کیوں واپس نہیں کیا گیا،نویں سوال میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوج نے جب جب ایکشن لینے کا عزم کی تو ایم کیو ایم نے تمام درد بھلا کر اس کی حمایت کی اور تعاون کے لیے بار بار اپنے ساتھیوں کو دینے کی پیش کش کی جبکہ ہمارے علاوہ کسی جماعت میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ ہزاروں لوگوں پر مبنی مارچ فوج کی حمایت میں نکالے۔

الطاف حسین کا اپنے دسویں سوال میں کہنا تھا کہ اسلام آباد میں دھرنے دینے والی جماعتوں نے پی ٹی وی پر حملہ کیا مگر وہاں رینجرز انہیں روکنے کے لیے حرکت میں کیوں نہیں آتی، گیارہویں سوال میں کہا گیا ہےکہ رینجرز نے کراچی اسکیم 33 میں چھاپہ مارا تو فیصل سبزواری کو رینجرز کے کسی ذمہ دار سے ملنے نہیں دیا گیا ،کیا منتخب نمائندوں سے رینجرز کے کسی افسرکا درجہ آئینی اعتبار سے زیادہ بڑا ہوتا ہے، بارہویں سوال میں آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے وطن بنایا اور قربانیں دیں لیکن ہمیں ہی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے اب فوج آخری بار بتائے کہ ہم کیاں کریں، تیرہویں سوال میں کہا گیا ہےکہ 40 روز گزر چکے ہیں کچھ جماعتوں کو ریڈ زون جانے ، دھرنے دینے کی اجازت ہے بڑی خوشی کی بات ہے جبکہ چودہویں سوال میں الطاف حسین نے کہا کہ اگر ایم کیوایم ، اسلام آباد ، ریڈزون میں ایک ہفتہ بعد دھرنے دینے کا بھر پور اعلان کرے تو فوج ، رینجرز اور پولیس حرکت میں تو نہیں آئیں گے۔

ایم کیوایم کے قائد نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سوالات سب کے دلوں کی ترجمان کرتے ہیں، آرمی چیف کو اللہ نے ایک بڑا اور طاقتور منصب عطا کیا ہے اس لیے وہ اپنے منصب سے انصاف کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں