حکومت2ہفتے میں مستقل چیف الیکشن کمشنر مقرر کرے سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کے لیے2روز میں بل لانے کا بھ

پختونخوا حکومت شیڈول دے، حکم پر عمل نہ ہوا تو وزرائے اعلیٰ کو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے، چیف جسٹس


APP/Numainda Express October 15, 2014
عہدے پر تقرر نہ ہوا تو اپنا جج واپس بلا لیں گے، عدالت، بلدیاتی الیکشن کیس میں پنجاب، سندھ، پختونخوا کے جواب مسترد، پختونخوا حکومت شیڈول دے، حکم پر عمل نہ ہوا تو وزرائے اعلیٰ کو توہین عدالت کا نوٹس دیں گے، چیف جسٹس فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے حکومت کو دو ہفتے کی مہلت دیدی جبکہ پنجاب اور سندھ کو بلدیاتی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں قانون سازی کیلیے بل2 روز میں اسمبلیوں میں پیش کرنے کاحکم دیدیا۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل بینچ نے خبردار کیا کہ اگر 28اکتوبر تک تقرر نہ ہوا تو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر فرائض کی انجام دہی سے دستبردار ہو جائیں گے۔ عدالت نے قرار دیا کہ رواں سال فروری میں حکومت کو تقرری کا حکم دیا گیا تھا لیکن اب تک عمل نہیں ہوا، ایک جج مسلسل ایک سال سے بطور قائم مقام اضافی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جس سے عدالتی کام متاثر ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا اگر مقررہ میعاد کے اندر تقرری نہ ہوئی تو وہ اپنا انتظامی اختیار استعمال کریں گے اور قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مزید کام نہیں کریں گے۔منگل کو بلدیاتی الیکشن کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کی عدم تقرری کا معاملہ اٹھایا اور وضاحت کے لیے فوری طور پر اٹارنی جنرل کو طلب کیا۔

اٹارنی جنرل نے کچھ دیر کی مہلت طلب کی، جب وہ دوبارہ پیش ہوئے تو بتایا کہ30سے 35دن میں تقرر ہوجائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سال سے عہدہ خالی پڑا ہے، ایک موقع اور دے رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ لمبا پراسیس ہے، مزید وقت دیا جائے تاہم انکی استدعاعدالت نے مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا مشاورت دو اشخاص قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ہونی ہے جس کیلیے ایک نشست بھی بہت ہے، قبل ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ نے بلدیاتی الیکشن کرانے کے متعلق عملدرآمد کیس میں پنجاب اور سندھ کو بلدیاتی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں قانون سازی کیلئے بل2 روز میں اسمبلیوں میں پیش کرنے کاحکم دیدیا جبکہ خیبرپختونخوا سے بلدیاتی انتخابات کاشیڈول طلب کرلیا اورقرار دیاکہ عدالتی احکامات پرعملدرآمد نہ ہوا تو متعلقہ وزیراعلیٰ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے طلب کیاجائے گا۔

عدالت نے پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کے جوابات مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ وفاقی حکومت رواں ہفتے کے آخر تک عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ 1976میں ترمیم کرکے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا اختیار صوبوں کو دیدے۔ سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ فتح ملک نے بتایا کہ لوکل باڈیز ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کا مسودہ گورنر نے3ماہ لٹکائے رکھا اور اب اعتراض لگا کر واپس کر دیا۔ چیف جسٹس نے یہ وضاحت مسترد کردی اور آبزرویشن دی کہ سپریم کورٹ نے فروری میں فیصلہ دیا، اسکے فوری بعد صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جاتا اور قانون کی منظوری حاصل کی جاتی،آرڈیننس اس لیے لایا جا رہا ہے کہ گورنر منظوری دیں گے اور نہ ہی بلدیاتی الیکشن ہوں گے، دراصل حکومت بلدیاتی الیکشن نہیں کرانا چاہتی۔

سپریم کورٹ نوٹس نہ لے تو کسی کو پروا بھی نہیں کہ بلدیاتی الیکشن آئینی تقاضہ ہے اور اس پر عمل درآمد تمام حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے۔ عدالت کہے گی تو حکومت کام کرے گی، جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ لمبی لمبی تقریروں کے لیے تو دو دو مہینے اجلاس چلتے ہیں لیکن قانون بنانے کے لیے وقت نہیں ہوتا اور آرڈیننسز کا سہارا لیا جاتا ہے، کیوں نہ وزیر اعلٰی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے طلب کرلیا جائے۔ ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ سیاسی حالات کی وجہ سے بھی تاخیر ہوئی، چیف جسٹس نے کہا اصل میں کوئی حکومت کام کرنے کے لیے تیار نہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ سات مہینے پرانا ہے،اگر ہم نوٹس نہ لیتے تو کوئی حکومت نہ آتی کہ فیصلے پر عمل درآمد ہو گیا ہے، ہم کہیں گے تو کام ہوگا اور فیصلوں پر عملدرآمد ہوگا، 21فروری2014کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب رزاق اے مرزا نے بتایا کہ ترمیم کا مجوزہ مسودہ الیکشن کمیشن کو بھیجا گیا لیکن کمیشن کی تجویز تھی کہ پہلے وفاقی حکومت قانون میں ترمیم کرے گی اس کے بعد صوبے کریں گے، اس ابہام کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا پہلے الیکشن کمیشن کو حد بندیوں کا اختیار ملے گا، اس کے بعد وہ صوبائی حکومت کے ساتھ کمیونیکیشن کرے گا۔ آئین پر عمل نہ ہو تو پھر حکومت کے کرنے کا کیا کام رہ گیا ہے۔

عدالت نے سندھ حکومت کے لیے ریکارڈ کرایا گیا آرڈر پنجاب حکومت پر بھی لاگو کر دیا۔ خیبر پختونخوا حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل لطیف یوسفزئی نے بتایا ہماری تیاریاں مکمل ہیں لیکن حلقہ بندیوں کے فیصلے کی وجہ سے ابہام پیدا ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا سندھ اور پنجاب حکومت کی حد بندیوں پر سیاسی جماعتوں کو اعتراض تھا اور معاملہ عدالت میں آیا تھا جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کی حلقہ بندیوں پر تو کسی نے اعتراض نہیں کیا، پھر ابہام کہاں سے آیا؟۔ عدالت نے مزید سماعت20 اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور تینوں صوبائی حکومتوں سے عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں