احتجاجی دھرنے والوں کو محفوظ راستہ دینا ہوگا

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دھرنے والوں کے بعد اب حکومت بھی اس دھرنے کے ثمرات سے مستفید ہونے کا ارادہ رکھتی ہے


Irshad Ansari November 12, 2014
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دھرنے والوں کے بعد اب حکومت بھی اس دھرنے کے ثمرات سے مستفید ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔ فوٹو: فائل

ملک میں دھرنا سیاست کے دفاعی پوزیشن میں جانے سے حکومت کو نہ صرف حوصلہ ملا ہے بلکہ حکومت اور اس کی تمام مشینری دھرنا سیاست کے دباؤ کی وجہ سے طاری جمود کو توڑ کر خوب متحرک دکھائی دے رہی ہے۔

حکومت اور حکومتی وزیر و مشیر چُپ کا روزہ توڑ کر اب جارحانہ موڈ میں بڑھ چڑھ کر نہ صرف حکومت و حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں بلکہ دھرنا سیاست کو کسی حد تک دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک وزیراعظم کے استعفٰی یا موت کو گلے لگانے کے دعوے کرنیوالے آج اپنے موقف میں نرمی لانے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ پہلے جوڈیشل کمیشن کے قیام اور کمیشن کی رپورٹ میں دھاندلی ثابت ہونے پر استعفٰی دینے کی پیشکش حکومت کر رہی تھی مگر دھرنا سیاست اسے قبول نہیں کررہی تھی مگر اب حکومت کسی قسم کے سمجھوتے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی ہے۔

قطع نظر اس کے کہ دھرنا سیاست ناکام ہوئی ہے حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے محفوظ راستہ دینا چاہیے تاکہ ترقی کا وہ سفر جو حکومت شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تمام تر توانائیاں مسافت کو طے کرنے میں خرچ کی جاسکیں کیونکہ جب تک یہ دھرنا ختم نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس کے ملکی معیشت اور سیاست پر اثرات تو بہرحال پڑیں گے۔ جس کا اعتراف حکومت نے اپنی حالیہ ا وجی ڈی سی ایل کے شیئرز کی بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ کے ذریعے فروخت کیلئے سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے باعث ٹرانزیکشن کو موخر کرکے کر بھی لیا ہے۔

اس ٹرانزیکشن کی ناکامی کی جو وجوہات دی گئی ہیں اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جہاں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی نے اس کو متاثر کیا ہے وہیں دھرنے کی وجہ سے بھی سرمایہ کاروں نے وہ ریسپانس نہیں دیا۔ اس لئے اگر یہ علامتی دھرنا بھی جاری رہتا ہے تو اس سے آنے والے دنوں میں جو بھی پالیسیاں متعارف کروائی جائیں گی وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دھرنے والوں کے بعد اب حکومت بھی اس دھرنے کے ثمرات سے مستفید ہونے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ اگر یہ دھرنا ختم ہوجائے اور حالات معمول پر آجائیں تو حکومت کے پاس اپنی ناکامیوں کو چھپُانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے۔ اب حکومت کو جس محاذ پر بھی ناکامی سامنا کرنا پڑتا ہے اسے دھرنوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔

لگ یوں رہا ہے کہ جیسے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن) دونوں ہی ان دھرنوں کو اپنی کوتاہیاں و ناکامیاں چھُپانے کا ذریعہ بنا رہی ہیں کیونکہ خیبر پختونخوا حکومت بھی ان ناکامیوں کو دھرنوں کے قالین کے نیچے چھُپا رہی ہے ۔ ان دھرنوں کی وجہ سے خیبرپختونخوا حکومت کی اپنی کارکردگی کہیں زیر بحث دکھائی نہیں دیتی ہے اور تمام تر توجہ دھرنوں پر مرکوز ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں عوام سے جو وعدے کئے تھے خیبرپختونخوا میں ان وعدوں پر عملدرآمد ہورہا ہے یا نہیں ہورہا ہے۔

کیا خیبرپختونخوا میں نوے دن کے اندر امن قائم ہوگیا ہے؟ کیا وہاں یکساں نصاب تعلیم لاگو ہوگیا ہے؟ کیا وہاں کرپشن سے پاک نظام لاگو ہوگیا ہے؟ یہ اور اس کے علاوہ بہت سے وہ سوالات جو پاکستان تحریک انصاف کے وعدوں سے جُڑے ہیں۔ اسی طرح اب وفاقی حکومت بھی ان دھرنوں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہے ۔ میٹرو بس منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا تو دھرنوں کی وجہ سے،او جی ڈی سی ایل کے شیئرز کی سٹاک مارکیٹ کے ذریعے فروخت ناکام ہوئی تو بھی دھرنوں کی وجہ سے، اقتصادی اہداف حاصل نہیں ہوئے تو وہ بھی دھرنوں کی وجہ سے نہیں ہوئے تو سب کچھ اگر دھرنوں کی وجہ سے ہو رہا ہے تو حکومت کدھر ہے۔

ریونیو کی گروتھ وہی ساڑھے چودہ فیصد سے اوپر نہیں جا رہی ہے جبکہ ٹیکسوں کی بھرمار کردی گئی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ بشمول عمران خان کے اپنے ٹیکس گوشوارے اور ٹیکسوں کی تفصیلات کدھر ہیں ۔ کیا صرف ٹیکس ڈائریکٹری شائع کردینا ہی کافی ہے۔ لہٰذا اب پاکستان تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ اس قوم پر احسان کرے براہ راست نہیں تو ان ڈائریکٹ اور دانستہ نہیں تو غیردانستگی میں حکومت کا ساتھ نہ دے اور یہ دھرنے ملک و قوم کے مفاد میں ختم کرکے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کریں جس سے عوام کو کوئی فائدہ ہو کیونکہ پاکستان آنے والی اہم شخصیات بشمول چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی اسی دھرنا سیاست پر عائد کی گئی۔

اب حکومت کریڈٹ لے رہی ہے کہ وزیراعظم نے اپنے دورہ چین کے دوران وہ معاہدے کئے جو چین کے صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہونا تھے اور یہ بات حکومت کی درست بھی ہے کیونکہ وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان ہونیو الے 45 ارب ڈالر کے 19 معاہدوں اور دو مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ملکی و عالمی میڈیا کی سُرخیوں کی زینت بنے ہیں جن میں 34 ارب ڈالر توانائی سے متعلقہ منصوبوں جب کہ 11 ارب ڈالر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبوں پر خرچ ہوں گے، ان معاہدوں میں تمام سرمایہ کاری چین سے کی جائے گی۔

وزیراعظم نواز شریف کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ چین کے دورہ سے توانائی کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی اور اقتصادی راہداری منصوبہ خطے کی تقدیر بدل دے گا۔ دورے کا مقصد ملک میں بجلی کے مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے کیونکہ اس وقت توانائی کا بحران سب سے زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے جس سے ملکی اقتصادیات سے منسلک تمام شعبوں کی کارکردگی متاثر ہونے سے بے روز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے' غربت اور محرومیاں بڑھنے سے ملکی مسائل روز بروز شدید سے شدید تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اگر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ابھی سے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والے برسوں میں یہ بحران مزید گہرا ہو جائے گا جسے حل کرنے کے لیے کھربوں ڈالر اور طویل مدت درکار ہوگی۔ اس تناظر میں پاکستان اکیلا ملکی مسائل سے نہیں نمٹ سکتا اس لیے اسے اپنے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے اور مالیاتی مسائل پر قابو پانے کے لیے غیر ملکی تعاون کو وسعت دینا پڑ رہی ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کی تکمیل اور گوادر کی بندر گاہ سے چین کو اپنا مال مشرقی وسطیٰ تک پہنچانے میں آسانی ہوگی، پھر چین جس تیزی سے عالمی تجارت میں آگے بڑھ رہا ہے اسے بھی اپنا مال مشرق وسطیٰ اور قریبی ممالک تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر جہاں پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے اربوں ڈالر کے معاہدوں اور ایم او یوز سائن ہوئے وہیں سنکیانگ کے مسئلہ پر بھی بات چیت ہوئی، خطے کی مجموعی صورتحال و خطے کے مستقل و پا ئیدار امن کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوا۔

وزیر اعظم نواز شریف اپنا دورہ چین مکمل کرنے کے بعد جرمنی پہنچ گئے ہیں۔ جہاں انہوں نے پاک جرمن بزنس فورم سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات اور عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ پاکستان ہر شعبے میں ترقی کے لئے اقوام عالم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور ہم ترقی کے لئے تمام ممالک کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں۔

پاکستان خطے میں معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور ہماری اولین ترجیح توانائی بحران کا حل ہے کیونکہ توانائی بحران پر قابو پائے بغیر ترقی ممکن نہیں اس لئے حکومت نے بجلی کی پیداوار کے لئے جامع پروگرام شروع کردیئے جن میں دیامر بھاشا ڈیم اور واسو ڈیم کی تعمیر بڑے منصوبے ہیں اور ان کی تعمیر سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات اور عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بھی ایک اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہے اور توقع یہ کی جارہی ہے کہ دسمبر میں آئی ایم ایف بورڈ پاکستان کی چوتھے اور پانچویں اقتصادی جائزہ رپورٹس کو تسلی بخش قرار دے کر ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی دو اقساط ایک ساتھ جاری کردے گا ۔ اگر یہ ہوجاتا ہے تو اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر دسمبر تک پندرہ ارب ڈالر تک لے جانے کا حکومتی ہدف اور وعدہ بھی پورا ہوجائیگا۔ تاہم اس کے لئے پاکستانی عوام کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی یہ سوالیہ نشان ضرور ہے۔ کیونکہ ابھی بجلی کی سبسڈی میں کمی کا معاملہ بھی پوری طرح مکمل نہیں ہوا ہے اور پھر گیس کی قیمتوں کی ریشنلائزیشن کی تلوار بھی لٹک رہی ہے اس کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے قانون کی پارلیمنٹ سے منظوری اور پھر نیپرا میں سٹرکچرل ترامیم بھی کرنا ہونگی۔

اس کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں میں کمی سے جو ٹیکس وصولیوں پر اثر پڑا ہے اور پھر او جی ڈی سی ایل کی ٹرانزیکشن مکمل نہ ہونے سے جو ریونیو کا شارٹ فال ہوگا اسے کیسے اور کہاں سے پورا کیا جائیگا۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جن کا عوام سے تعلق ہے۔ کیونکہ بجٹ میں پرچون فروش تاجروں کیلئے متعارف کروائی جانے والی ٹو ئیٹر پالیسی پر بھی عملدرآمد شروع ہوچکا ہے اور تاجروں کو ملنے والے حالیہ بجلی کے بلوں میں ٹیکس کی یہ رقم شامل کردی گئی ہے۔

اب اس سے تاجر یہ بوجھ عوام پر منتقل کرکے عوام کا کتنا مزید خون نچوڑتے ہیں اس کے اثرات بھی نمودار ہونا شروع ہو جائیں گے اور پھر موسم سرما ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو چل ہی رہی ہے اب گیس بھی ستائے گی یہ جہاں عوام کیلئے امتحانات ہیں، وہیں حکومت کا بھی امتحان ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بطور وزیر اعلی میاں شہباز شریف خود احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب پنجاب حکومت کے خلاف کون سازش کرنے جا رہا ہے اب تو چار ماہ کیلئے سی این جی بند کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا گیا ہے کیا یہ سب پھر سے دھرنا سیاست کیلئے ایندھن کا انتظام تو نہیں کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو شائد حکومت کو بہت خوفناک عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ کسی جماعت کا نہیں بلکہ عوام کے اندر اُبلنے والا لاوا ہوگا جو پھٹنے کیلئے تیار معلوم ہو رہا ہے۔ اس لئے حکومت کو سوچ سمجھ کراور حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہونگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں