اپیک کانفرنس معاشی استحکام کے نئے مظاہر

مذکورہ بالا اقتصادی کانفرنس کا انعقاد ایک نئے بنیادی اقتصادی پیراڈائم کی غمازی کرتا ہے


Editorial November 11, 2014
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے امکانات اب حقیقت بن کر سامنے آ رہے ہیں، فوٹو:رائٹرز

GILGIT: چین کے دارالحکومت بیجنگ میں اپیک ممالک کی 2 روزہ کانفرنس شروع ہو گئی ہے، اجلاس میں روسی صدر ولادی میر پوتن اور امریکی صدر بارک اوباما سمیت 21 ممبر ممالک کے سربراہان اور نمایندے شرکت کر رہے ہیں، اپیک کی سالانہ بنیادوں پر منعقد ہونے والی سمٹ کا بنیادی ایجنڈا رکن اقوام کی معاشی سرگرمیوں کے گرد گھومتا ہے، اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر ژی جن پنگ نے کہا کہ چین کی معیشت مستحکم ہے اور اسے کسی قسم کے خطرات کا سامنا نہیں ، اجلاس میں پاکستان کی جانب سے سابق گورنر اسٹیٹ بینک ششماد اختر نے اقوام متحدہ کی ایشیا پیسفک پروگرام کی ایگزیکٹو سیکریٹری کی حیثیت سے شرکت کی، ان کا کہنا تھا کہ ایشیا میں معاشی شرح نمو میں تیزی کے لیے رہنماؤں کو نئے اور دلیرانہ اقدام کرنا ہوں گے جس کے لیے سب یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ۔

مذکورہ بالا اقتصادی کانفرنس کا انعقاد ایک نئے بنیادی اقتصادی پیراڈائم کی غمازی کرتا ہے جس کے تحت اب دنیا کے اقتصادی ناخدا مل بیٹھ کر یہ سوچنے لگے ہیں کہ عالمی مالیاتی و اقتصادی نظام کو مسابقت کے ساتھ ساتھ اشتراک عمل ، عالمی تعاون ، مشترکہ منصوبوں اور مفاہمت کے ذریعے معاشی مسائل اور اقتصادی ترقی کے اہداف تک رسائی کا ذریعہ بنایا جائے۔

چین نے بلاشبہ دنیا کے دو سپر پاورز امریکا اور روس کو سرد جنگ کے زمانے سے اس آزمائش میں رکھا کہ وہ اپنے بے پایاں معاشی ، سماجی اور افرادی قوت پر مشتمل وسائل کو بروئے کار لائیگا ۔ اسے سیاسی بازیگری اور دنیا کے سیاسی بلاکوں پر اجارہ داری کا کوئی شوق نہیں ، اسی ایجنڈے نے چین کو آج قابل رشک معاشی دیو کی حیثیت دی ہے جس سے امریکا ، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اشتراک عمل اور ایک نئے اقتصادی نظام کی بنیاد رکھنے کی عملی کوششوں کو بڑھاوا دینے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ پاکستان اس نئے معاشی نظام سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔ اسے توانائی ، غربت کے خاتمے ،سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم و صحت کے بے شمار مسائل کے حل کے لیے عالمی اقتصادی تعاون اور مالیاتی امداد و اشتراک کار کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود انحصاری کی منزل تک پہنچ سکے ۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین اور پاکستان کے مابین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے امکانات اب حقیقت بن کر سامنے آ رہے ہیں،ایک دوست ملک کی سرمایہ کاری کو پاکستان کے عوام کی معاشی حالت کی تبدیلی سے مشروط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ چین کا اقتصادی ماڈل اور اس کی معاشی سرگرمیاں پاکستانی ماہرین اور معیشت دانوں کے لیے مشعل راہ ہیں، معاشی طاقت کا تصور بدل چکا ہے، دنیا کے معاشی اور عالمی مالیاتی نظام پر تسلط اور اجارہ داری کی روش اب ایک نئے مفاہمانہ کردار میں ڈھل رہی ہے اور اس تبدیلی کا راز چین کے پاس ہے جو دنیا کی دوسری بڑی اکنامی ہے اور تیزی سے عالمی منڈیوں میں داخل ہوری ہے ۔

اب سپرپاورز کے لیے چین کو ساتھ لے کر چلنے کی مجبوری بھی عیاں ہے ۔ اس دو روزہ کانفرنس کے معاہدوں پر روسی صدر ولادی میر پوتن اور اْن کے چینی ہم منصب، زی جن پنگ نے دستخط کیے، مغربی روٹ کے ساتھ ساتھ، توانائی کی اس لائن کی مدد سے روسی قدرتی گیس چین پہنچے گی، روسی صدر کا کہنا تھا کہ اب پائی جانے والی ہم آہنگی مسلسل دوستی کا نتیجہ ہے ۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اپیک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی منظر پر ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال چین کے ابھرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں، امریکا ایشیا سے متعلق اپنے عزم پر پوری طرح سے قائم ہے، اس موقع پر انھوں نے چین کے ساتھ ایک نئی ویزا پالیسی کا اعلان بھی کیا جس کے تحت دونوں ملکوں کے شہریوں کے لیے جاری کیے جانے والے قلیل مدتی سیاحتی و کاروباری ویزوں میں ایک سے 10 سال تک کی توسیع کی جا سکے گی ۔

امریکا اور دوسرے یورپی ممالک کے لیے 25 فروری 2014 ء کو چین کی جانب سے 50 ارب ڈالر سے نیا ایشین بینک قائم کرنے کا اقدام غیر معمولی تھا، جس سے عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے کا ایجنڈا مرتب ہوا، ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑیگا، یہی وجہ ہے امریکا نے چھوٹتے ہی اس بینک کی مخالفت شروع کردی ۔ تاہم موجودہ کانفرنس میں صدر اوباما نے کہا کہ چین عالمی نظام کی تیاری میں حصہ بنے اسے سبوتاژ نہ کرے ۔ تاہم چین اپنے روادارانہ انداز سیاست و سفارت سے پیش رفت میں مصروف ہے ، پاکستان اور بھارت سمیت 21 ممالک ایشین بینک کے حوالہ سے این او یووز پر دستخط کرچکے ہیں، صرف جاپان،جنوبی کوریا،آسٹریلیااور انڈونیشیا اس پروجیک مین شامل نہیں ہوئے ۔

وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ چین پاکستان میں گوادربندرگاہ، ہائیڈل،ونڈ،کول توانائی اورموٹروے سمیت متعدد منصوبوں میں گہری دلچسپی رکھتاہے اوراربوں ڈالرکی شفاف سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔پیرکونجی ٹی وی چینل سے بات چیت میں وفاقی وزیرنے کہاکہ چین کی پاکستان میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری سے دوطرفہ تعلقات مزیدمستحکم ہونگے۔انکاکہناتھاکہ چین ہمارا ایک قابل اعتماداورمخلص دوست ہے جودنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے جس سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کو مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے،چین مشکل وقت میں ہماری مددکر رہا ہے جس پر ہم اس کے مشکور ہیں ۔ چین کی اپیک کانفرنس سے چند اہم معاشی حقائق کی نشاندہی ہوتی ہے جو پاکستان کے لیے خاص طور پر قابل غور ہے ۔

ایک تو یہ کہ معاشی طاقت کا تصور امریکا میں بھی بدل چکا ہے،ایک بار سابق امریکی صدر ہربرٹ ہوور نے کہا تھا کہ میرے سیاسی مخالفین نے بیان بازی کرتے ہوئے مجھے یہ اعزاز بھی بخشا کہ چونکہ تمام علمی اور معاشی طاقت کا مرکز میں ہوں اس لیے عالمی کساد بازاری بھی میری ہی جنبش ابرو کا کمال تھا۔ تاہم پاکستان کے ارباب اختیار جو پاک چین دوستی کے نعرے کی عملی تعبیر کے لیے کوشاں ہیں اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ آج کی دنیا میں معاشی ارتکاز کے کئی نمونے ہیں ، امریکی اقتصادی ماہرین کا انداز نظر بھی یہ ہے کہ اب بجائے اسٹینڈرڈ آئل ، یو ایس اسٹیل ، یونین پیسیفک ریل روڈ، جے پی مورگن اینڈ کمپنی کے ہمارے پاس امیزان، گوگل ، ایپل ، فیس بل اور مائیکرو سافٹ ہیں ۔

ان سارے اداروں کے پاس مواصلاتی انقلاب کے وسائل ہیں، عالمی ذرایع ابلاغ کو مہمیز کرنے کی معاشی طاقت ہے، ان ملکوں میں مستقل محاذ آرائی نہیں ہوتی ، ریاست فرد اور خاندان کو مکمل تحفظ مہیا کرتی ہے جب کہ حکومت کو معاشی مسابقت اور ریاستی اور اپنی ناگزیر ترجیحات میں ملک کی معاشی ترقی کو مقدم رکھنا پڑتا ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار اس قسم کی عالمی کانفرنسوں سے اس حقیقت کا ادراک کریں گے کہ معاشی طاقت ہی سیاسی قوت کا تعین کرتی ہے اور معاشی طور مستحکم ملک ہی اپنی آزادی ، سالمیت ، اور خود مختاری کا مکمل تحفط کرسکتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں