(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ہاں! میں مختلف ہوں

قیصر اعوان  پير 1 دسمبر 2014
ہر ایک کو اپنے بیٹے کے لیے گوری چِٹی دلہن چاہیے، میری سیرت، میرا کردار، میری پاکدامنی، میری تعلیم کسی کو نظر نہیں آتی، اگر کچھ نظر آتا ہے ، تو وہ ہے میری سیاہ رنگت، یہی میرا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے، اور مجھے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہر ایک کو اپنے بیٹے کے لیے گوری چِٹی دلہن چاہیے، میری سیرت، میرا کردار، میری پاکدامنی، میری تعلیم کسی کو نظر نہیں آتی، اگر کچھ نظر آتا ہے ، تو وہ ہے میری سیاہ رنگت، یہی میرا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے، اور مجھے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہاں! میں مختلف نظر آتی ہوں
اپنی سیاہ رنگت کی وجہ سے
شاید اسی لیے
مجھے نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے
میری ہر بات کا مذاق اُڑایا جاتا ہے
مجھے لوگوں کے طعنے سننے پڑتے ہیں
سب طرح طرح کے فقرے کستے ہیں
میں نہیں جانتی کہ ایسا کیوں ہے
مگر اتنا جانتی ہوں کہ میرا بھی ایک دل ہے
ایک کمزور سا دل
جو ذرا ذرا سی بات پر ٹوٹ جاتا ہے
اورپھر میں اپنے آپ کو کوستی ہوں
کہ میں ایسی کیوں ہوں، میں ویسی کیوں نہیں
میں دوسروں کی طرح، خوبصورت کیوں نہیں

میرے بیچارے بوڑھے ماں باپ
میری وجہ سے ہر دم پریشان رہتے ہیں
آخر یہ بات انہیں کون سمجھائے گا
کہ بھلا ایک بدصورت کو
اپنی بہوکون بنائے گا
ہر ایک کو اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن چاہیے
پڑھی لکھی بے شک زیادہ نہ ہو
مگر گوری چِٹی ضرورہونی چاہیے
میری سیرت، میرا کردار،
میری پاکدامنی، میری تعلیم کسی کو نظر نہیں آتی
اگر کچھ نظر آتا ہے ، تو وہ ہے میری سیاہ رنگت
یہی میرا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے
اور مجھے ٹھکرا دیا جاتا ہے

اور آخر کار کچھ لمحوں کے لیے
میں سب کچھ بھول جاتی ہوں
میں خدا کی عطا کردہ تمام نعمتوں کو پسِ پُشت ڈال کر
خدا کی نافرمان بن جاتی ہوں
اور شکوہ کرتی ہوں کہ
اگرمجھے پیدا کرنا ہی تھا تو تھوڑا حُسن بھی دے دیتا
مجھے یوں رُسوا تو نہ ہونا پڑتا
تجھے تو سب خبر تھی
کہ مجھے جس معاشرے میں رہنا ہے
وہاں گورا، کالے پر فضیلت رکھتا ہے
وہاں خوبصورت کو نیک سیرت پر فوقیت دی جاتی ہے
تجھے تو سب خبر تھی ناں، پھر تو نے ایسا کیوں کیا؟
یا اللہ ! تو نے مجھے پیدا کیوں کیا؟

پھر مجھے باہر پارک میں بیٹھی
ایک خوبصورت لڑکی نظر آتی ہے
بہت ہی حسین، جیسے پرستان سے آئی ہو
یا اللہ! کیا ہوتا جو تو مجھے بھی ایسا بنا دیتا
تیرے خزانے میں تو کوئی کمی نہیں تھی ناں
پھر اچانک سب کچھ بدل جاتا ہے
جب میں اُسی حسین پری کو
اپنے باپ کا ہاتھ تھامے
جاتا دیکھتی ہوں
اُس کی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے
’’بابا! یہ دنیا کتنی خوبصورت ہے‘‘
’’جتنی میری بیٹی خوبصورت ہے‘‘
’’اور بابا! میں کتنی خوبصورت ہوں‘‘
بیچارا باپ حسرت سے اپنی نابینا بیٹی کی طرف دیکھتا ہے

اور میں اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاتی ہوں
روتی ہوں، گڑگڑاتی ہوں
اپنی اُن ناشکریوں کی معافی مانگتی ہوں جو
بچپن سے لیکر آج تک میں کرتی آئی ہوں
اور میری سب محرومیاں یکدم ختم ہو جاتی ہیں
میری خوداعتمادی، میرے خوف پر غالب آجاتی ہے
اب مجھ میں ہمت ہے کچھ کر دکھانے کی
دنیا کے سامنے اپنا آپ منوانے کی
اور یہ دنیا مجھے ویسے ہی خوبصورت نظر آنے لگتی ہے
جیسے میں ہمیشہ سے دیکھنا چاہتی تھی

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔