- نااہل حکومتیں پہلے بھی تھیں، آج بھی ہے:فیصل واوڈا
- ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا انتظام 10 سال کیلئے بھارت کے حوالے کردیا
- مظفرآباد صورت حال بدستور کشیدہ، فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق اور متعدد زخمی
- پاکستان اور امریکا کا ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم
- سینٹرل ایشین والی بال لیگ میں پاکستان کی مسلسل تیسری کامیابی
- نئے قرض پروگرام کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع
- آئین معطل یا ختم کرنے والا کوئی بھی شخص سنگین غداری کا مرتکب ہے، عمر ایوب
- آئی سی سی نے پلیئر آف دی منتھ کا اعلان کردیا
- آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن دیکھنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
- خواجہ آصف کا ایوب خان پر آرٹیکل 6 لگانے اور لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ
- سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کیلئے خوشخبری
- پاک فوج کے شہدا اور غازی ہمارے قومی ہیرو ہیں، آرمی چیف
- جامعہ کراچی میں فلسطینی مسلمانوں سے اظہاریکجہتی کیلیے ’’دیوار یکجہتی‘‘ قائم
- نان فائلرز کی سمیں بلاک کرنے کیلیے حکومت اور ٹیلی کام کمپنیاں میں گروپ بنانے پر اتفاق
- 40 فیصد کینسر کے کیسز کا تعلق موٹاپے سے ہوتا ہے، تحقیق
- سیکیورٹی خدشات، اڈیالہ جیل میں تین روز تک قیدیوں سے ملاقات پر پابندی
- سندھ میں گندم کی پیداوار 42 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد رہی، وزیر خوراک
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گر گئی
- برازیل میں بارشوں اور سیلاب سے ہلاکتیں 143 ہوگئیں
- ہوائی جہاز میں سامان رکھنے کی جگہ پر مسافر خاتون نے اپنا بستر لگا لیا
(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - گورے رنگ کا زمانہ
خوبصورت کون ہے؟ کیا آپ خوبصورتی کی علامت جانتے ہیں یا پھر آپ بھی معاشرے کے باقی لوگوں کی طرح گورے رنگ کو ہی خوبصورتی سمجھتے ہیں ؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ اس معاشرے کی نظر میں نارمل ہیں، کیونکہ اگر ہم آج کل ٹی وی پر اشتہارات دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کا رنگ گورا نہیں ہے تو وہ بالکل بے مصرف ہے۔ نا تو اسے اچھی نوکری ملے گی اور نا ہی اس کی شادی کسی اچھی جگہ ہو سکتی ہے۔
رنگ روپ کے فرق کی اصل وجہ جغرافیائی خطہ ہے، ہمارے خطے میں بسنے والے بیشتر افراد کا رنگ یا تو گندمی ہے یا سانولا ہے، پھرنجانے کیوں یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پراڈکٹس بیچنے کے لئے اس قسم کے اشتہارات بناتی ہیں جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے کم رنگ کی وجہ سے کوئی ان کے پاس نہیں آنا چاہتا، پھر اچانک ایک ’’گوری رنگت والا لڑکا یا لڑکی ‘‘ آتے ہیں اور انہیں اپنی کمپنی کی مہنگی پراڈکٹ خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں جس کو لگاتے ہی کامیابی ان کے قدم چومنے لگتی ہے ۔ ارے واہ کیا راز ہے کامیابی کا، اور تو اور لوگوں کی محبت اور خاص توجہ بھی صرف ایک کریم کی دوری پر ہے ۔
صرف ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی نہیں جناب اس فہرست میں تو ہمارے حکیم اور ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ پڑھ لکھ کر جدید سائنسی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی یہ لوگوں کو خوبصورت سے خوبصورت تر ہونے کے مشورے دیتے ہیں۔ کیبل پر ان کے چلنے والے اشتہارات میں پاکستانی رنگ و روپ کے مسائل کو غیر ملکی چہروں سے ایسے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والا ان کی بات سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔
حیرت اس بات کی ہے ڈاکڑ اور حکیم دونوں ہی یہ بات ایک عام انسان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ گورا رنگ ،اونچا قد یا کوئی اور جسمانی خوبصورتی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ پیدائش سے قبل ہمارا ڈی این اے تیار ہوتا ہے جس میں تمام تر معلومات لکھ دی جاتی ہیں اور پھر ہمارے ہاتھ میں کیا ہے یہ تو اس خالق کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو کس سانچے میں ڈھالتا ہے، لیکن افسوس یہ بات جاننے کے لئے ہمارے پاس وقت ہی کہاں ہے، ہمارے ذہنوں میں تو ’’گوری رنگت والی خوبصورتی‘‘ کا کیڑا گھسا ہوا ہے جو نا ہمیں چین سے جینے دے گا اور نا ہی مرنے۔
شاید قصور ان سب کا بھی نہیں ہے، لوگوں کی سوچ نے ہی انہیں موقع دیا ہے ورنہ انہیں کیا مصیبت پڑی ہے لوگوں کے ذہنوں سے کھلینے کی ۔ ہزاروں سالوں سے چلی آرہی اس سوچ کواب بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ نا تو خوبصورتی گورے رنگ میں ہے اور نا ہی بدقسمتی کالی رنگت والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ یہ تو انسان کی تفریق ہے ورنہ اصل خوبصورتی تو انسان کے کردار میں ہے اس کی سوچ میں ہے اس کی عادات میں ہے لیکن ان لوگوں کو کون سمجھائے جو محض دوسروں کو ان کی شکل و صورت کی وجہ سے کبھی کالا، کالی، کالن، کلن اور کالو جیسے نام دے دیتے ہیں۔ یہ نام نا صرف ان لوگوں میں احساس کمتری پیدا کرتے بلکہ دوسروں کے لئے ان کے دلوں میں نفرت کی چنگاری بھی جلا دیتے ہیں۔
اکثر اوقات بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اچھی جگہ نوکری اور شادی کے لئے رشتوں سے صرف اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کا رنگ اتنا صاف نہیں ہوتا۔ زمانے کی باتوں سے بچنے کے لئے یہ لوگ مختلف کریموں اور ٹوٹکوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے جلد کی مختلف بیماریاں شروع ہو جاتی ہیں، ساتھ ساتھ اچھا خاصا چہرہ بھی بگڑ جاتا ہے۔
مانا کہ اچھا لگنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو احساس کمتری کا شکار کردیں۔ اگر ہمارے کہے ایک لفظ سے بھی کسی کی دل آزاری ہوئی تو ہم خدا کی بارگاہ میں کیا جواب دیں گے کہ ہم نے اس کی تخلیق کو ذلیل کیا؟ جس کا رنگ کالا ہے وہ بھی انسان ہے اور اسے بھی زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ ہمیں اب اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ اصل خوبصورتی آپ کے اندر چھپنے کردار و گفتار میں ہے۔ شرمندہ انہیں ہونا چاہیے جن کو اس تمیز کا علم نہیں نا کہ وہ جو کردار میں بہتر ہے مگر اس کا رنگ کالا ہے !
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔