نعت خواں بھی سریلے ہوتے ہیں

یونس ہمدم  جمعـء 19 دسمبر 2014
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے اکثر نعت خواں بڑے بڑے فلمی گلوکاروں سے بھی زیادہ سریلے ہوتے ہیں اور جتنے بھی نعت خوانوں سے میری ملاقاتیں اور دوستی رہی ہے میں نے ان کی آواز میں بے پناہ سوز و گداز اور سُر ہی سُر محسوس کیے ہیں۔ میرے علاوہ بھی اکثر لوگوں کا خیال ہے کچھ نعت خواں ابتدا میں فلمی گلوکار بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں مگر جب ان کے اردگرد کا مذہبی ماحول ان کے اس شوق کا ساتھ نہیں دیتا تو وہ اپنے حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور اس طرح نعت خواں بن جاتے ہیں۔

اس طرح ان کا گلوکاری کا شوق بھی پورا ہوتا رہتا ہے اور نعتیں پڑھتے ہوئے ثواب دارین بھی حاصل کرتے رہتے ہیں اور آج کے دور میں تو نعت خواں گلوکاروں سے بھی زیادہ مشہور ہیں اور ان کی آمدنی بھی کچھ کم نہیں ہوتی ہے بلکہ جتنا جو نعت خواں مشہور ہوتا چلا جاتا ہے وہ شہرت بھی حاصل کرتا ہے اور شہرت کے ساتھ دولت بھی خوب ملتی رہتی ہے۔ ان کی پیشگی بکنگ ہوتی ہے۔ میں جب ریڈیو کے لیے لکھا کرتا تھا تو میری بہت سے نعت خوانوں سے دوستی ہو گئی تھی اور اکثر ریڈیو اسٹیشن پر ہم گھنٹوں بیٹھے باتیں کیا کرتے تھے ان میں مشہور نعت خواں خورشید احمد، فصیح الدین سہروردی، کلیم سرور اور خاص طور پر منیبہ شیخ سے بڑی اچھی واقفیت اور بے تکلفی ہو گئی تھی۔

منیبہ شیخ سے کراچی یونیورسٹی ہی کی واقفیت تھی۔ جب یونیورسٹی کا ہمارا پہلا سال تھا۔ اور منیبہ شیخ، سعیدہ غیاث، غیاث احمد خان (پروفیسر غیاث وہاب خان) اور استاد امیر احمد خان ہم اکثر ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ فصیح الدین سہروردی، خورشید احمد اور منیبہ شیخ نے میری نعتیں بھی ریڈیو کے لیے ریکارڈ کرائی تھیں۔ اور میری نعت کے کیسٹ بھی ریلیز ہوئے تھے۔ نعت خواں خورشید احمد سے جب بھی ریڈیو پر ملاقات ہوتی تھی، میں اپنے پروگرام اور خورشید احمد اپنی ریکارڈنگ کے بعد فارغ ہو کر اسٹوڈیو کے کسی خالی کمرے میں بیٹھ جایا کرتے تھے ایک دو دوست اور بھی آ جاتے تھے اور پھر موسیقی کی محفل جم جاتی تھی۔ خورشید احمد اپنی سریلی آواز میں ہمیں اپنی اور ہماری پسند کے فلمی گیت سنایا کرتا تھا، ایک دن خورشید احمد بڑے موڈ میں تھا اس نے برملا کہا تھا ہمدم بھائی! اگر میں نعت خواں نہ ہوتا تو ایک اچھا گلوکار ہوتا پھر اس نے اپنی پسند کے چند گیت سنائے جن کا تعلق فلم میلہ، بابل اور دیدار سے تھا اس نے جو گیت محمد رفیع نے گائے تھے بالکل محمد رفیع ہی کے انداز میں گائے وہ گیت آج بھی میرے دل پر نقش ہیں۔

٭میری کہانی بھولنے والے تیرا جہاں آباد رہے

٭محبت ہی نہ جو سمجھے وہ ظالم پیار کیا جانے

٭یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے

خورشید احمد آنکھیں بند کیے گا رہا تھا اور اپنی انگلیوں سے میز پر ہلکا ہلکا طبلہ بھی بجا رہا تھا۔ فلم میلہ کا گیت اس نے اتنے پرسوز انداز اور آواز میں گایا کہ ہمیں محمد رفیع کی یاد دلادی، آنکھیں بند کر کے وہ گیت سنتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے ہم محمد رفیع کا ریکارڈ سن رہے ہیں۔ وہ لمحے وہ ملاقاتیں آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ خورشید کی ابھی کچھ زیادہ عمر بھی نہیں تھی کہ ایک دن پتہ چلا کہ نعت خواں خورشید احمد دنیا کے تمام جھمیلے اور میلے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اسی طرح سریلا نعت خواں فصیح الدین سہروردی بھی ہے۔ اس کی نعتوں کی مشہور کیسٹوں میں میری بھی کئی نعتیں شامل ہیں۔ فصیح الدین کی بھی کیا شاندار آواز ہے۔ سر، لے اور مرکیاں گلے میں سموئی ہوئی ہیں۔ میں تو بس اتنا ہی کہوں گا کہ سر اور ردھم ہماری کائنات کا ایک حصہ ہیں اور ابتدائے آفرینش سے لے کر موسیقی ہر دور میں انسان کی زندگی میں شامل رہی ہے اسی طرح اذان میں بھی سروں کا گہرا رچاؤ شامل ہے جب کہ ہر دور میں درویشوں اور صوفیاؤں نے سر اور لے کو پسند کیا ہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی سریلے نعت خوانوں کی، ان میں ایک ایسی ہی سریلی نعت خواں منیبہ شیخ کا بھی تذکرہ آتا ہے۔

منیبہ شیخ جتنی سریلی ہے ایسے سر تو کسی بڑی سے بڑی گلوکارہ کو بھی مشکل سے نصیب ہوتے ہیں۔ منیبہ شیخ اگر چاہتی تو ایک کامیاب گلوکارہ بھی بن سکتی تھی مگر اپنے گھر کے مذہبی ماحول کی وجہ سے اس نے کبھی ایسا سوچنے کا تصور ہی نہیں کیا۔ ہاں البتہ اس نے اپنے شوق کی خاطر موسیقی کی تھوڑی بہت تعلیم مشہور کلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندو خان سے حاصل کی تھی اور یہ استاد امیر احمد خان کی بھی شاگر د رہی ہے۔ منیبہ شیخ سے ہم نے کئی بار یونیورسٹی کے زمانے میں یونیورسٹی کے سبزہ زار پر بیٹھ کر فلمی گانے بھی سنے ہیں۔ منیبہ شیخ استاد امراؤ بندو خان کے گھر ہر ماہ کے آخری ہفتے کی شام منعقد ہونے والی محفل موسیقی میں بھی شرکت کیا کرتی تھی۔ استاد امیر خان اکثر منیبہ شیخ سے یہ کہا کرتا تھا منیبہ! اگر تم گلوکاری کے شعبے میں آ جاؤ تو تم بڑی بڑی فلمی گلوکاراؤں کو دھول چٹا دو گی۔ تو وہ امیر خان سے ہنس کر کہتی تھی، بس بس رہنے دیں خان صاحب! میں نعت خواں ہی بھلی۔

ایک دن ریڈیو پر امیر احمد خان سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا یونس ہمدم! آج منیبہ شیخ نے ہم دونوں کو اپنے گھر رات کھانے پر بلایا ہے۔ ان دنوں منیبہ شیخ طارق روڈ کے رہائشی علاقے میں رہتی تھی جہاں اس کے بھائی کا گھر تھا اور وہ اپنے بھیا اور بھابی کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ ہم دونوں جب اس شام منیبہ کے گھر پہنچے تو وہ ہمارا سرشام سے انتظار کر رہی تھی۔ وہ بڑی ملنسار اور باوقار خاتون ہے۔ یونیورسٹی اور ریڈیو کے رشتے سے ہماری دوستی بھی تھی اور ہمارے درمیان ایک پرخلوص تعلق بھی تھا اور اسی تعلق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امیر احمد خان نے منیبہ شیخ سے کہا کہ آج تمہارے گھر تمہارے استاد موسیقار کے ساتھ ایک شاعر بھی آیا ہے اور تم ایک بہترین نعت خواں کے علاوہ ایک خوش گلوکارہ بھی ہو تو پھر آج ہم دونوں کی فرمائش پر آج ایک چھوٹی سی موسیقی کی محفل ہو جائے۔

پہلے تو منیبہ انکار کرتی رہی پھر ہم دونوں کے بے حد اصرار پر وہ رضامند ہو گئی اور امیر احمد جس کی گاڑی میں ایک ہارمونیم ہر وقت رہتا تھا۔ امیر احمد خان فوراً باہر گیا اور اپنا ہارمونیم لے آیا۔ اور پھر محفل موسیقی کا آغاز ہو گیا۔ بغیر طبلے کے بھی منیبہ صرف ہارمونیم پر بہت اچھا اور خوب گا رہی تھی۔ اس کی سریلی اور مدھ بھری آواز نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ اس دوران منیبہ کی بھابی صاحبہ کچن میں کھانا بھی بناتی رہیں اور وقفے وقفے سے ہماری محفل موسیقی میں بھی آتی اور جاتی رہیں۔ منیبہ شیخ نے امیر احمد خان کے ساتھ ایک دو ڈوئیٹ بھی گائے۔ وہ بے تکان ایک گھنٹے تک گاتی رہی اس دوران اس نے لتا منگیشکر کے مشہور اور مقبول ترین ایسے گیت سنائے جو سدا بہار اور کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس وقت منیبہ شیخ کی آواز میں ہمیں لتا منگیشکر جھلک سنائی دے رہی تھی خاص طور پر منیبہ نے یہ گیت تو بہت خوب گائے:

٭۔۔۔۔۔۔ بلما دل کیوں جلایا تو نے

٭ لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو

٭ او بسنتی پون پاگل نہ جا رے نہ جا

٭ بہارو میرا جیون بھی سنوارو۔

یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ہم کیا کریں

٭جھلمل ستاروں کا آنگن ہو گا

اور آخر میں جب منیبہ شیخ نے فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘ کا ایس ڈی برمن کی موسیقی میں کیفی اعظمی کا لکھا ہوا لتا منگیشکر کا گایا ہوا یہ گیت گایا:

وقت نے کیا کیا حسیں ستم

تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم

تو اس گیت کے اختتام پر منیبہ شیخ کی آواز رندھ گئی اور آخر میں وہ رو پڑی۔ اس کے ماں باپ اس سے دور ہو گئے تھے۔ منیبہ اپنے ماں باپ کی محبت سے محروم ہو گئی تھی۔ منیبہ شیخ نے زندگی کے بڑے کڑے حالات برداشت کیے تھے وہ اپنے آپ کو بڑے حوصلے کے ساتھ لے کر چل رہی تھی۔ چند لمحوں کے لیے ہم بھی آبدیدہ ہو گئے تھے پھر کچھ دیر کے بعد ہم سب نارمل ہوئے اور یہ شام ایک یادگار شام ہو گئی۔ امریکا آنے کے بعد میری گزشتہ پندرہ سولہ سال سے منیبہ شیخ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ منیبہ کو حکومت کی طرف سے اس کو بحیثیت ایک مشہور نعت خواں کے پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ منیبہ شیخ زندگی میں کبھی مشکلوں اور مصیبتوں سے نہیں گھبرائی۔ اس نے کبھی کسی سے کوئی امید نہیں رکھی اور کبھی کسی سے کوئی شکایت نہیں کی۔ یہ ہمیشہ سے ایک باحوصلہ اور خوددار خاتون رہی ہے۔ اس کی یہی خوبی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔

نوٹ۔ گزشتہ ہفتے ’’فنکارگلی‘‘ کے کالم میں نامور طبلہ نواز استاد اللہ دتہ کا نام لکھنے سے رہ گیا تھا۔ جو مشہور موسیقار جاوید اللہ دتہ اور قمراللہ دتہ کے والد محترم تھے، جب کہ استاد نتھو خان سارنگی نواز تھے۔ میں اس سہو پر معذرت چاہتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔