کیٹالونیہ کا ریفرنڈم

زبیر رحمٰن  اتوار 4 جنوری 2015
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

کیٹالان شمالی مشرقی ہسپانیہ میں بحیرہ روم پر واقع ہے۔ اس پر پندرھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ انیسویں صدی میں انارکسسٹوں نے قدم جمالیے ۔ جمہوریہ نے پایہ تخت بارسلونا کو بنایا۔ اس وقت اس کی کل آبادی 75 لاکھ 65 ہزار 603 ہے ۔ کیٹالونیہ میں -39   1936 تک جب 11 لاکھ انارکسسٹ اور لاکھوں بائیں بازو کے گوریلا جنگ باز جنرل فرانکو کی فسطائی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کررہے تھے، اس وقت کیٹالونیہ میں طبقات ختم ہوگئے تھے، ایک موچی اور جنرل، نائی اور دانشور، دھوبی اور سول افسر ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر ساتھ کھانا کھاتے تھے، کوئی آپ جناب نہیں تھا، بلکہ سب ایک دوسرے کو کامریڈ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

بعد ازاں روس اور اسپین کی کمیونسٹ پارٹیوں نے اس انقلاب کو رد انقلاب میں بدل دیا، بلکہ انارکسسٹوں، کمیونسٹ، سوشلسٹ کارکنان، فسطائی مخالف انقلابیوں کا قتل عام کیا ۔ مگر آج پھر ایک بار کیٹالونیہ کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ 9 نومبر 2014 کو کیٹالونیہ میں ریفرنڈم ہوا ۔ یہ ریفرنڈم کیٹالونیہ کی خودمختاری کا ریفرنڈم تھا۔ یہ ریفرنڈم کیٹالونیہ کی حکومت کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جب کہ اسی روز اسپین کی عدالت ریفرنڈم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے چکی تھی ۔ بیلٹ پیپرز پر دو سوالات تھے، ایک یہ کہ کیا آپ کیٹالونیہ کو ایک ریاست بنانا چاہتے ہیں؟ دوسرا سوال، کیا آپ اس ریاست کو خودمختار بنانا چاہتے ہیں؟ دوسرے سوال کا جواب وہ دیں گے جو پہلے سوال کا ہاں میں جواب دیں گے ۔ کیٹالونیہ کی حکومت نے کہا ہے کہ کل 23 لاکھ 5 ہزار 290 ووٹ بحیثت مجموعی ڈالے گئے ۔ میڈیا کی جانب سے شایع ہونے والی خبروں کے مطابق 37.0 فیصد سے 41.6 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے، جب کہ 80.8 فیصد لوگوں نے ہاں میں ووٹ ڈالے۔

یہ ریفرنڈم 18 دسمبر 2012 کے ایک معاہدے کے مطابق جن میں آرٹرماس کنورجنس یونین کی جانب سے اور اوریل جیسکورس بائیں بازو کی جمہوریہ کیٹالونیہ کے مابین طے پایا تھا ۔ اس میں آرٹیر کو کیٹالونیہ کا بحیثیت صدر دوسرے مرحلے کا ریفرنڈم کے انعقاد کی اجازت دی گئی تھی ۔ 19 دسمبر 2014 کو کیٹالین پارلیمنٹ نے خودمختاری کے لیے ریفرنڈم کروانے کی منظوری دی ۔ 8 دن بعد آرٹر ماس نے اعلان کیا کہ 9 نومبر 2014 کو ووٹ ڈالے جائیِں گے ۔ اسی روز اسپینش عدالت کے اس ریفرنڈم کو روکنے کا حکم جاری کیا ۔

اسپینش عدالت نے 29 ستمبر 2014 کو حکومت کا مقدمہ سننے کا فیصلہ کیا اور عارضی طور پر ووٹ ڈالنے کے عمل کو روک دیا ۔ پھر کیٹالونیہ کی حکومت نے بھی عارضی طور پر ریفرنڈم کی مہم روک دی ۔ 14 اکتوبر کو آرٹر ماس نے حقیقی ریفرنڈم کروانے کے لیے شہریوں کی شمولیت کے مرحلے کی تجویز پیش کی ۔ اسپینش حکومت نے اسے بھی اسپین کی عدالت میں روکنے کی اپیل کردی، جس کی شنوائی کے لیے عدالت نے 4 نومبر 2014 کی تاریخ دی تھی اور عارضی طور پر ووٹ ڈالنے کے عمل کو روکا تھا۔ بہرحال کیٹالونیائی حکومت نے اسپین کی دستوری عدالت کے احکامات کو نہ مانتے ہوئے ووٹنگ کروانے کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اس ریفرنڈم کے لیے 14000 رضاکاروں نے صبح آٹھ سے رات آٹھ تک ریفرنڈم کروا کر نتائج پیش کردیے۔

صرف کیٹالونیہ نہیں بلکہ اس وقت دنیا کے 152 ملکوں کے عوام آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جن میں یوکرین، جاپان، تھائی لینڈ، برکینافاسو، کردستان، ایران، ترکی، یونان، پرتگال، اٹلی، فرانس اور امریکا کے عوام قابل ذکر ہیں۔ یوکرین کے عوام نیٹو سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس کا ایک حصہ خودمختار ہوچکا ہے، جاپان میں قبل از وقت انتخابات کروانے پڑے، تھائی لینڈ کے عوام نے تین ہفتے تک بینکاک ائیرپورٹ کو بند رکھا، برکینافاسو کے عوام نے آمر کو انقلابی عمل کے ذریعے نکال باہر کیا، کردستان کے عوام خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں، ایرانی عوام امریکی سامراج اور ملائیت کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، ترکی کے عوام داعش اور نیٹو فوجی اڈے کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں، یونان، پرتگال، اٹلی اور فرانس کے عوام اپنی حکومتوں سے آزادی چاہتے ہیں۔

امریکی عوام مسلسل معاشی کٹوتی، نسل پرستی اور ملکوں پر فوج کشیوں کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں لڑی جانے والی لڑائی بنیادی طور پر مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ابھر رہی ہے، یعنی لوگ جینے کا حق اور آزادی مانگ رہے ہیں، جب کہ دنیا میں اتنی پیداوار ہورہی ہے جس سے سات ارب نہیں بلکہ دس ارب انسانوں کو کھلا کر بھی بچ سکتا ہے، مگر سرمایہ دار اپنے منافعے میں اضافے کے لیے اجناس گوداموں میں ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ اگر دنیا کے ممالک کی سرحدیں ختم ہوجائیں تو کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔ کچھ ملکوں کے پاس بڑے رقبے، کم آبادی اور زیادہ وسائل ہیں، جب کہ کچھ کے پاس کم وسائل، زیادہ آبادی اور کم رقبے ہیں، مثال کے طور پر آسٹریلیا کی آبادی دو کروڑ تیس لاکھ ہے جب کہ یہ ایک پورا براعظم ہے، اور وسائل کی بھرمار ہے، کسی زمانے میں یہاں کی مقامی آبادی اپنے وسائل سے لطف اندوز ہوتی تھی، جب کہ برطانوی سامراج آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر حملہ آور ہوا تو وہاں کی آبادی کا قتل عام کیا، باقی جانوروں پہ سوار ہو کر سمندر پار کرکے ہندوستان آپہنچے اور کچھ کوئی راہ نہ ملنے پر وہیں رہنے پر مجبور ہوئے۔

اگر ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجائیں تو کروڑوں لوگ پاکستان اور ہندوستان سے جاکر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بس سکتے ہیں۔ کینیڈا کا رقبہ دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے جب کہ یہاں کی آبادی تین کروڑ پچاس لاکھ کی ہے۔ بے شمار وسائل، رہنے کی جگہیں ہیں اور روزگار ہے، جب کہ برازیل میں کروڑوں انسان بے روزگار اور مہنگائی سے تڑپ رہے ہیں۔ برازیل کے لیے کینیڈا کی سرحدیں کھلی ہوں تو کروڑوں برازیلین کینیڈا جاکر آباد ہوسکتے ہیں۔ وہاں ان کو روزگار بھی ملے گا اور کینیڈا کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں ہر ریاست میں نائیجیریا، کینیا اور میکسیکو جیسے ممالک کی ساری آبادی کی کھپت ہوسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض پر روز 75 ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہیں، جب کہ 870 بلین ڈالر کا سالانہ اسلحہ دنیا میں تیار ہوتا ہے اور 120 بلین ڈالر سالانہ بلیوں اور کتوں پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ امریکا میں 30 کروڑ 40 لاکھ ٹن پھل روزانہ کوڑے دانوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں افیون کی پیداوار 80 فیصد افغانستان میں ہوتی ہے، اس کی روک تھام کے لیے 2014 میں 7 ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں، مگر اس کی کاشت کاری کو تباہ نہیں کیا جاسکا یا کرنا نہیں چاہتے۔ دنیا بھر میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، طبقاتی خلیج میں اضافہ، آزادی پر قدغن کے خلاف عوام لڑرہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب دنیا ایک ہوجائے گی، سرحدیں ختم ہوجائیں گی، تمام وسائل کے مالک سب لوگ ہوں گے، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔