ایک نئی مشکل

محمد عمیر دبیر  پير 9 فروری 2015
اگر غلطی سے کوئی شخص سم کی تصدیق سے متعلق کوئی سوال کرلے تو الٹا انہیں ہی جھاڑ پلا دی جاتی ہے۔  فوٹو فائل

اگر غلطی سے کوئی شخص سم کی تصدیق سے متعلق کوئی سوال کرلے تو الٹا انہیں ہی جھاڑ پلا دی جاتی ہے۔ فوٹو فائل

سانحہ پشاور کے بعد حکومتی مشینری تیزی سے متحرک نظر آئی۔ ننھے معصوم شہداء قوم کو ایک بار پھر چیخ چیخ کر کہہ گئے کہ خدا کے واسطے دہشت گردوں کے خلاف ایک ہوجائو۔ ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف کئی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کیں تو کئی اجلاس بھی بلائے گئے، لیکن اب کی بار طے یہ پایا کہ دہشت گردوں کے خلاف یک زبان ہونا ہے، مگر آج اس سانحے کو 53 دن گزر چکے ہیں، لیکن افسوس کہ آج تک کوئی نہ تو کوئی قاتل گرفتار ہوسکا اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف کئے گئے فیصلوں پر کوئی خاطر خواہ عملدر آمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 

سانحہ پشاور جیسے المناک سانحے کے بعد سیکوریٹی اقدامات کو یقینی بنانے کے حوالے سے 9 جنوری کو ایک اعلی سطحی اجلاس طلب کیا گیا جس کی صدارت خود وفاقی وزیر داخلہ نے کی۔ اِس اجلاس میں سیکورٹی پلان کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ جس میں نیکٹا اور دیگر اداروں نے شرکت کی۔ اجلاس کے آخر میں یہ طے پایا کہ ملک بھر میں استعمال ہونے والی سموں کی بائیو میٹرک تصدیق کا عمل شروع کیا جائے۔ وفاقی وزیر ٹیکنالوجی نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشین اتھارٹی کو ہدایت جاری کیں۔ جس کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کی جانب سے موبائل صارفین کو بذریعہ میسج (SMS) آگاہ کیا گیا کہ اپنے نام پر جاری ہونے والی سمز کی بائیو میٹرک تصدیق جلد از جلد کروالیں بصورت دیگر ایسا نہ ہونے کی صورت میں آپ کی استعمال ہونے والی سم کو بند کر دیا جائیگا اور پھر یہ کھلنے کی مجاز نہیں ہوگی۔

ملک بھر میں اس وقت موبائل صارفین کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تقریباً 10 کروڑ کے قریب ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ 1990 سے لے کر دسمبر 2014 تک موبائل فون کمپنیوں نے بغیر کسی ضابطہ اخلاق کے صارفین کو سمیں جاری کیں۔ موبائل سم کا حصول اتنا آسان ہوگیا کہ ملک کا کوئی بھی شہری باآسانی اور بغیر کسی شرط سم حاصل کرسکتا تھا۔ ان سموں کے جاری ہونے کے بعد اس میں ہونے والے ایزی لوڈ، میسج، کال پیکجز اورانٹرنیٹ کے ذریعےکمپنیز اپنی آمدنی حاصل کرکے کروڑوں اور اربوں کے منافع کو سال میں باآسانی حاصل کرلیتی تھی۔

ملک بھر میں موبائل فون سروس استعمال کرنے والے صارفین کو جیسے ہی ہی ٹی اے کی جانب سے پیغام موصول ہوئے۔ شہریوں نے اپنی اپنی متعلقہ سروس سیلز سینٹر، فرینچائز کا رخ کیا۔ میں اپنی بلاک سم کے حصول اور سم کی تصدیق کے سلسلے میں اپنی سروس کے متعلقہ سینٹر پہنچا تو وہاں ایک عجیب مچھلی بازار سا لگا ہوا تھا۔ جو اسٹاف ممبران ہم نے نہایت آرام اور پرخلوص لہجے میں بات کرتے تھے اب وہ سوال پوچھنے پر کاٹ کھانے کو دوڑ رہے تھے۔ خیر سم کے حصول کے لئے نمبر آنے پر میں نے خاتون آفیسر کو اپنا مسئلہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ بائیو میٹرک کی تصدیق کے علاوہ کوئی کام نہیں ہورہا۔ آپ اپنی سم کے حصول کے لئے دوپہر تین بجے کے بعد آئیں۔ ہمارے سینٹرز رات 8 تک کھلے ہوتے ہیں۔

شام 6 بجے اسی کمپنی کے سروس سینٹر پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہاں سم کی نقل اس وقت نہیں ملتی آپ تین بجے سے پہلے آئیں۔ اسی طرح چکر لگاتے لگاتے چار روز گزرگئے مگر مسلسل مایوسی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ تقریباً ہر بار ہی لڑائی دیکھی اور گالیوں سے کان معطر ہوئے۔ وجوہات جاننے پر پتہ چلا کہ صارفین کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی کی جارہی ہے، انہیں گھنٹوں لائن میں کھڑا رکھا جارہا ہے اور اگر غلطی سے کوئی شخص سم کی تصدیق سے متعلق کوئی سوال کرلے تو الٹا انہیں ہی جھاڑ پلا دی جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ فرنچائز پہنچنے والے کچھ بااثر لوگوں کو قطار میں لگنے کی ضرورت تک نہیں پڑتی۔

سم کی بائیو میٹرک کے لئے فرنچائز کے علاوہ گلی محلوں میں کھلی دُکانوں اور اسٹالز میں بھی بائیومیٹرک کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ اس ضمن میں 10 روپے سے لے کر 30 روپے تک وصول کئے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں موبائل فون کمپنیوں نے سم کی فروخت کے لئے اسی طرح گلی محلوں میں اسٹالز لگائے تھے جبکہ 2006 سے پہلے بننے والے شناختی کارڈ صارفین کے فنگر پرنٹس نہ ہونے کے باعث ان کی سم کا بائیوں میٹرک ممکن نہیں۔

اس طرح جو لوگ پہلے سم کے لئے پریشان تھے وہ اب نادرا آفس کے چکر لگانے پر بھی مجبور ہوگئے ہیں۔ 50سال سے زیادہ عمر کے بزرگوں کے فنگر پرنٹس بھی مشین اٹھانے سے قاصر ہے۔ لیکن پھر بھی پی ٹی اے کے اعلامیہ کے مطابق اب تک تقریب 6 کروڑ سموں کی تصدیق ہوچکی ہے ۔

ایک حساب کے مطابق ان 6 کروڑ سموں سے حاصل ہونے والی فی سم 10 روپے کے حساب سے 60 کروڑ تک بنتی ہے۔ یہ رقم کس مد میں صارفین سے وصول کی جارہی ہے یہ بات موبائل فون کمپنیز بتانے سے قاصر ہیں۔ اُمید تو یہی ہے کہ یہ رقم عوامی فلاح و بہبود اور سیکورٹی کے بندوبست میں خرچ ہوگی لیکن افسوس یہ ہے کہ یہاں جس بات کی بھی اُمید لگائی جائے تو نتیجہ کچھ اُلٹ ہی نکلتا ہے۔ بہرحال حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ موبائل فون سموں کی تصدیق کے لئے کوئی ایسا سسٹم متعارف کرواتی کہ جس سے صارفین کو مشکل نہیں ہوتی اور بجائے صارفین سے کمانے کے انہیں ریلیف فراہم کیا جاتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں اس حوالے سے کیس دائر کیا گیا ہے مگر مجھے پوری امید ہے کہ اس کا فیصلہ تب ہی سنایا جائے گا جب تمام کام ختم ہوجائے گا یا عوام سب کچھ بھول جائے گی۔ پیسے تو واپس نہیں آنے مگر عوام کو چاہیے کہ اپنی آواز کو پھر بھی بلند کریں تاکہ مستقبل میں آپ کے ساتھ پھر کوئی دھوکا دہی نہ کی جائے۔ اس کرپشن پر آواز بلند کیجئے ورنہ ماضی کی طرح اس بار بھی حکمرانوں کی نااہلی پھرعوام کے کاندھوں پر ڈال دی جائے گی اور حکمران امیر سے امیر تر ہوجاتے چلے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔