احمد کو اُسکی ذہانت نے بچالیا

ناصر تیموری  جمعـء 18 ستمبر 2015
14 سالہ مسلمان ذہین لڑکے محمد احمد کو ہتھکڑیاں پہنا کر پولیس ہیڈ کوارٹرز لے جایا گیا۔

14 سالہ مسلمان ذہین لڑکے محمد احمد کو ہتھکڑیاں پہنا کر پولیس ہیڈ کوارٹرز لے جایا گیا۔

امریکہ میں ایک مسلمان بچے احمد محمد کی دلچسپ انداز سے بنائی گئی الیکٹرانک گھڑی کو بم سمجھ گرفتار کرلیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ بچے کا تین دن تک اسکول میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا۔

یہ بچہ اپنے اساتذہ کو اپنی ذہانت سے متاثر کرنا چاہتا تھا، لیکن متعصب اساتذہ اور اسکول پرنسپل نے اسے ایف بی آئی اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اسلامو فوبیا کی شکار اسکول انتظامیہ نے اس کی ایک نہ سنی پولیس نے کلاس میں ہی ننھے احمد محمد کو ہتھکڑیاں پہنادیں اور کسی عادی مجرم کی طرح اسے پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں اس کو لاک اپ میں بند کردیا گیا اور بعد ازاں اسے جیل (بچوں کے حراستی مرکز) بھیج دیا گیا۔ وہاں وہ دوران تفتیش زارو قطار رونے لگا اور یہ بتانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس کی تیار کردہ الیکٹرانک گھڑی ’’دھماکا خیز ٹائم بم‘‘ نہیں بلکہ اسکول کی استانی کی مشاورت سے مکمل کیا جانے والا الیکٹرونک کلاک کا پروجیکٹ ہے۔

امریکی تفتیشی حکام نے احمد محمد کے خلاف بم بنا کر ڈرانے کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی تصدیق کی تھی، جس کے نتیجے میں احمد محمد کو بچہ جیل میں 6 ماہ قید یا ایک سال کی جبری کمیونٹی سروس کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا لیکن شدید عوامی ردِ عمل نے پولیس کو مقدمہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔

امریکیوں کے متعصبانہ رویئے سے نالاں لڑکے کے والد محمد حسن نے بتایا کہ ان کا بیٹا ذہین طالب علم اور روبوٹک انجینئرنگ کا شوقین ہے اور کئی چیزیں ایجاد کرچکا ہے، جس کی اسکول ریکارڈ سے تصدیق کی جاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کو دہشت گرد بنادیا گیا۔ اس واقعے کے بعد احمد محمد نے اسکول جانے سے بھی انکار کردیا ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ جس اسکول میں ننھے سائنسدانوں کو ان کے ناموں اور مذہب کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دیکر پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ اس اسکول میں ہرگز نہیں جانا چاہتا، وہ دہشت گرد نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ دہشت گردوں اور مجرموں والا سلوک کیا گیا، کلاس روم سے گھسیٹ کر لے جایا گیا، مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور کئی گھنٹے تک الٹے سیدھے سوالات کئے جاتے رہے۔ احمد کے بقول جب اس نے اپنے والدین سے بات کرنے کی اجازت مانگی تو کہا گیا کہ اجازت نہیں مل سکتی تم زیرتفتیش ہو اور مشتبہ مجرموں کو کسی سے رابطے کی اجازت نہیں ہے۔

پولیس حکام نے اس کا ٹیبلٹ، اس کی الیکٹرانک گھڑی اور اس کا سامان تحویل میں لے لیا ہے، اس 14 سالہ مسلمان ذہین لڑکے کو ہتھکڑیاں پہنا کر پولیس ہیڈ کوارٹرز لے جایا گیا، اس کی انگلیوں کے فنگر پرنٹ لئے گئے جبکہ تفتیش کے دوران سیکورٹی اہلکار بار بار اسکے آخری نام محمد سے مخاطب کرتے رہے، سیکورٹی اہلکاروں نے لڑکے کو والد سے بات تک کرنے سے بھی روک دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہتھکڑی پہنے لڑکے کے جسم پر امریکی خلائی ادارے ناسا کی شرٹ زیب تن تھی۔

جب یہ حقائق منظر عام پر آنا شروع ہوئے تو سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا آغاز ہوا جس میں اسکول انتظامیہ، پولیس اور امریکی حکومت پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ ٹوئٹر پر ’’آئی اسٹینڈ ود احمد‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ سب سے پہلے نمبر پر آگیا۔ اسلام اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے معاملے کو دبانے کے لئے امریکی صدر اوباما نے مسلمان لڑکے کی الیکٹرانک گھڑی کی تعریف کرتے ہوئے اسے اگلے ماہ وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی، وائٹ ہاؤس میں وہ آسٹرونومی نائٹ میں شرکت کرے گا جبکہ اپنے ساتھ اپنی الیکٹرانک گھڑی لانے کا بھی کہا، اس کے علاوہ ٹیکنالوجی سے منسلک 14 کمپنیوں نے ذہین مسلمان لڑکے کی حمایت کردی۔

فیس بک کے مالک نے بھی ذہین مسلمان لڑکے کو ملازمت کی پیشکش کردی کہ وہ جب چاہے ان سے ملاقات کرسکتا ہے، اس کے علاوہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے احمد محمد کو اپنے ہاں مدعو کرنے کے لئے دعوت نامہ بھیج دیا اور ٹورنٹو میں ہونے والی ناسا کے جنریٹر شو میں شرکت کی دعوت دی۔ ٹوئٹر نے بھی ذہین لڑکے کو اپنے ہاں انٹرنی کی پیشکش کردی۔ گوگل نے بھی اپنے سائنسی میلے میں ذہین لڑکے کو شرکت کی دعوت دیدی۔ مقامی چرچ رہنماؤں نے بھی لڑکے کو تھری ڈی پرنٹر اور انجینئرنگ کے دیگر سامان کی پیش کش کردی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی حکومت، وائٹ ہاؤس اور صدر اوباما کو نویں جماعت کے لڑکے سے مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا احساس ہوگیا ہے تو انہوں نے امتیازی رویہ برتنے پر کتنے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی؟ یہ سب اپنے چہرے کی کالک مٹانے کے لئے ذہین لڑکے کو عزت تو دے رہے ہیں لیکن اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

بات صرف یہ ہے کہ مسلمان لڑکے کے ساتھ اتنی تذلیل اور پھر اس کے بعد بھرپور آؤ بھگت کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسلمان لڑکا غیرمعمولی طور پر ذہین ہے جس پر سول سوسائٹی سمیت پوری دنیا سے بھرپور ردِ عمل سامنے آیا۔ اگر یہ مسلمان طالب علم اوسط درجے کا ہوتا تو پھر نہ وائٹ ہاؤس نوٹس لیتا، نہ اوباما نوٹس لیتا اور مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا شائد معمولی سا واقعہ بھی رپورٹ نہیں ہوتا، جس طرح مذہبی و نسل پرستی کے واقعات کا مسلمان نشانہ بنتے ہیں، لیکن لڑکے کی ذہانت اس کو بچا لے گئی۔

اگر امریکی صدر اوباما واقعی اعلیٰ اقدار کے مالک ہیں تو اسکول کے اساتذہ، اسکول پرنسپل، متعلقہ پولیس حکام اور ایف بی آئی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں تاکہ آئندہ کسی کو مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنانے کی ہمت نہ ہو۔ اس لئے آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ جب تک اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، اس وقت تک برائے مہربانی وائٹ ہاؤس میں مسلمان لڑکے کے بلاوے اور صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کے ذکر پر مرعوب نہ ہوں۔ امریکہ کی جانب سے یہ ایک محض جھینپ مٹانے کی کوشش ہے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔