جنرل راحیل شریف کامقررہ وقت پر ریٹائرمنٹ کااعلان

آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے اور ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آئی


Editorial January 27, 2016
جنرل راحیل شریف نے امسال نومبر میں ریٹائر ہونا ہے ابھی ان کی ریٹائرمنٹ میں10 ماہ کا عرصہ پڑا ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتے اور مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے ۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے پیر کوٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق افواہیں بے بنیاد ہیں جب کہ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاک فوج عظیم ادارہ ہے اورمدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہوجاؤں گا ۔

ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا۔ترجمان پاک فوج کے مطابق جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پوری طاقت کے ساتھ جاری رہیں گے، پاکستان کا وسیع ترملکی مفاد مقدم ہے اورہرقیمت پرملک کو محفوظ بنایا جائے گا۔واضع رہے کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت رواں سال 29 نومبر کو پوری ہوجائے گی جس کے بعد وہ ریٹائر ہوجائیں گے ۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل کے بیان کے بعد ان افواہوں کا خاتمہ ہوگیا ہے جو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے گردش کر رہی تھیں۔جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کچھ عرصے سے قیاس آرائیاں جاری تھیں' کچھ حلقے یہ مشورہ دے رہے تھے کہ جنرل صاحب کو توسیع لے لینی چاہیے یا حکومت کو توسیع دینی چاہیے اور کچھ حلقے دعویٰ کر رہے تھے کہ توسیع نہیں لینی چاہیے۔

بعض حلقے اس ایشو کو دانستہ چھیڑ رہے تھے لیکن جنرل راحیل شریف نے تمام افواہیں اور قیاس آرائیاں ختم کر دی ہیں' ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور دانشوروں نے ان کے اس اعلان کوسراہا ہے'اصولی طورپر پاک فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ یا توسیع کے حوالے سے قبل از وقت بحث سے پرہیز کیا جانا چاہیے تھا'یہ ایک حساس معاملہ ہے کیونکہ موجودہ حالات میں جب کہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فائنل فیز میں داخل ہے' اس عہدے کی ریٹائرمنٹ یا توسیع عام بحث موضوع نہیں ہونا چاہیے۔

بہر حال پاک فوج کے سربراہ نے احسن فیصلہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک پروفیشنل سپاہی ہیں اور پاک فوج میں ان کا جانشین ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں ہے' اس اعلان سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جنرل راحیل شریف اکثر حیران کر دینے والے فیصلے کرتے آ رہے ہیں' پاک فوج کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے آپریشن کرنا تھا' یہ بہت مشکل اور کٹھن محاذ تھے۔

دہشت گردی کے خلاف لڑائی تو خیر پہلے سے جاری تھی' سوات اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہو چکے تھے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کو زیادہ جذبے اور شدت سے لڑنے کا سوال پھر بھی موجود تھا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے بھی ابہام موجود تھا'سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے عہدے کی میعاد میں توسیع قبول کر لی تھی لیکن ان کے دور میں شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کیا جا سکا۔اس میں یقینی طور پر کچھ مشکلات حائل ہوں گی'ان میں پڑے بغیر حقیقت یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ ہونے کے باعث پاکستان پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھ رہا تھا۔

ادھر ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ابہام کا شکار تھیں' شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنے کے مشورے دیے جا رہے تھے۔یہ مشورہ دینے والوں میں بعض سیاسی جماعتوں کے بڑے لیڈران بھی شامل تھے اور دانشور حلقے بھی اس مہم کا حصہ تھے۔ ادھر دہشت گردی کی وارداتیں بھی شدت سے ہو رہی تھیں' آخر کار وزیرستان میں آپریشن شروع کردیا گیا' وفاقی حکومت نے آپریشن کی منظوری دیدی' اس آپریشن کا کریڈٹ بہر حال جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔

جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف بھی زیرو ٹالرنس کا ثبوت فراہم کیا۔ آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے اور ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آئی۔گو اس دوران اے پی ایس پشاور اور چارسدہ یونیورسٹی کا سانحہ پیش آیا۔پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ بھی خود کش حملے کا نشانہ بنے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچاہے۔

نیشنل ایکشن پلان کی منظوری میں بھی جنرل راحیل شریف کا اہم کردار ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امسال نومبر میں ریٹائر ہونا ہے' ابھی ان کی ریٹائرمنٹ میں10 ماہ کا عرصہ پڑا ہے۔ وہ ملک کے پہلے آرمی چیف ہیں' جنہوں نے اتنا عرصہ پہلے کہہ دیا کہ وہ اپنے عہدے کی مقررہ مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے تاہم اپنی میعاد عہدہ کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے مزید کارنامے سر انجام دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں